آخر کار آئینی بینچ بھی بن گیا
جناب عالی ائینی بینچ جس کے لیے اتنا کچھ ہوا ائینی ترمیم ہوئی جس کے لیے بہت کچھ ہوا بالاخر اس ائینی بینچ کا بھی
اج کڑاکا نکل گیا ہے اور وہ بھی کیونکہ یہ جلد بازی کے اندر اپ لندن نہ کریں گڑبڑ نہ کریں یہ ہو ہی نہیں سکتا اغاز اس بات سے کرتے ہیں کہ اج ائینی بینچ جو ہے وہ بنا تو جوڈیشل کمیشن جو جہاں پہ جسٹس یا افریدی کی سربراہی کے اندر وہاں پہ انہوں نے صدارت کی تو اج مجموعی طور پہ 12 لوگوں نے شرکت کی 12 لوگ اس میں شریک تھے اور ان 12 لوگوں میں سے سات پانچ کے تناسب سے جسٹس امین الدین خان جس طرح یو کہنا چاہیے نا کہ قاضی فائض عیسی فوٹو کاپی تھے۔
جسٹس منیر کے تو جسٹس امین الدین خان جو ہیں وہ قاضی فائز عیسی کا ہی ایک سایہ ہے تو یوں کہہ لیجیے کہ اج سات پانچ کے تناسب سے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی بینچ جو ہے وہ ائینی بینچ بنایا گیا ہے اب کن لوگوں نے امین الدین خان کی مخالفت کی اور کن لوگوں نے ان کے حق میں ووٹ دیا اور ائینی بینچ میں کون کون سے لوگ ہیں وہ بھی بتاتا ہوں نمبر ون ان کی مخالفت کی ۔
چیف جسٹس یحیی افریدی نے نمبر ٹو ان کی مخالفت کی جسٹس سید منصور علی شاہ نے نمبر تین مخالفت کی جسٹس منیب اختر نے تو دوسرے لفظوں میں یوں کہیے کہ سپریم کورٹ کے کسی جج نے جسٹس امین الدین خان کو ائینی بینچ کا سربراہ بنانے کی حمایت نہیں کی تین لوگ یہ ہو گیا دو لوگ مزید ہیں جس میں شبلی فراز سیر سے اپوزیشن کے ہیں اور عمر ایوب قومی اسمبلی سے اپوزیشن کے ہیں تو یوں پانچ افراد نے کہا کہ جسٹس امین الدین خان کو اس کا سربراہ یا پریزائڈنگ جج نہ بنایا جائے۔
تو پھر مخالفت کے باوجود حمایت کس نے کی نمبر ون حمایت اعظم نظیر قاری مسلم لیگ نون کے وزیر قانون نے کہا کہ ہمیں جسٹس زمین الدین خان بھی چاہیے پھر حکومت کے اٹانی جنرل جو حکومت کے پارٹی ہوتے ہیں منصور عوان صاحب نے کہا کہ ہمیں بھی جسٹس سلیم الدین خان ہی چاہیے فاروق اس نائٹ پیپلز پارٹی جو تماشہ لگا رہے تھے کہ پیپلز پارٹی ناراض ہے تو پیپلز پارٹی نے کہا ہمیں بھی امیر الدین خان ہی چاہیے شیخ افتاب نون لیگ کے ہمیں بھی جسٹس امین الدین خانی چاہیے روشن خورشید جو بتایا گیا تھا کہ خاتون کی سیٹ کے اوپر نامزد کی گئی ان کا ہمیں بھی امیر الدین خانی چاہیے۔
اور بار کونسل کے جو نمائندے ہیں انہوں نے بھی ووٹ ہے وہ امیر الدین خان کی اور مزے کی اپ کو بات بتاؤں جسٹس امین الدین خان نے بھی اپنے حق میں ووٹ کاسٹ کیا سورج جسٹس امین الدین خان حکومت کے اور اپنا ووٹ لینے کے بعد سات پانچ کے تناسب سے ائینی بنچ کے سربرا یا دوسرے لفظوں میں ریزائڈنگ جج بن گئے تو اس کو سمرائی ضرور کیجئے کہ کسی بھی سپریم کورٹ کے جج نے ان کی حمایت نہیں کی۔
اور کسی حکومت کے رکن نے ان کی مخالفت نہیں اب جسٹس یحیی افریدی جو ہیں وہ تو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہیں تو کیا کہا جا سکتا ہے کہ جسٹس سمیع الدین خان حکومتی چیف جسٹس عمل ہے کیونکہ اختیارات تو یوں لگ رہا ہے جیسے ائینی بیچ کے سربرا کے پاس زیادہ ہے اگلی بات جسٹس امیر الدین خان کی سربراہی میں جو سات رکنی ائینی بنچ ہے اس میں کون کون سا جج شامل اور وہ کس بنیاد پہ بنایا گیا یہ امین الدین خال اس کے سربراہ ہیں نمبر ٹو کے اوپر جسٹس جمال خان مندوخیل ہیں نمبر تین پہ جسٹس محمد علی مظہر ہے نمبر چار پہ جسٹس عائشہ اے ملک ہیں نمبر پانچ پہ جسٹس حسن اظہر رضوی صاحب ہیں ا نمبر چھ کے اوپر جسٹس مستند ہلاری صاحبہ ہیں اور نمبر سات پہ نعیم اختر افغان ہیں۔
قاضی صاحب کے بہت ہی پسندیدہ اب ایک سوال یہ جو سات لوگ ہیں ان کا ائینی بینچ میں اتفاق کا کیا کرائٹیریا کیا اس بنیاد کے اوپر سینیورٹی کی بنیاد کے اوپر بنایا گیا ہے اگر سینیرٹی کی بنیاد کے اوپر بنایا گیا ہے تو جسٹس عطر من اللہ اس میں شامل ہوئے نمبر ون پلینڈر نمبر ٹو اگر اپ یہ کہیں کہ صوبوں کو برابر نمائندگی دی گئی ہے تو چلیں امین الدین خان اور عائشہ ملک تو ہوٹل پنجاب سے دونوں اور مندو خیل اور نعیم اختر افغان تو ہو گئے بلوچستان سے محمد علی مظہر صاحب حسنظر رضوی صاحب تو ہو گئے سندھ سے تو خیبر پختون خواہ سے صرف جسٹس مستند لالی کیوں صرف ایک جج کی تو سارے صبح سے برابر لینا چاہیے تھا ۔
اور اپ نے برابری کی بنیاد کے اوپر بھی صبح کے نمائندگی نہیں دی اور اگر یہ کیا ہے تو اسلام اباد میں جج کہاں پہ ہے اور اگر اپ نے بلوچستان کو نمائندگی دینی تھی جو سر من اللہ صاحب کو شامل کر لیتے ہیں ان کو شامل نہیں کرنا تھا تو جسٹس یحیی افریدی کو شامل کر لیتے ہیں اب ذرا دن تو کہا جا رہا ہے کہ یہ حکومتی عملا چیف جسٹس ہے امیر الدین خان صاحب جنہوں نے خود کو بھی ووٹ کیا ہے اب میں اپ کو ایک اور کھا رہی اور خبر دیتا ہوں جنہوں نے از خود اپنا ووٹ کیا تو اپ کو یہ لگے گا کہ بھائی انہوں نے کیا کیا اب جیسے ہی یہ ہو گیا اور تحریک ان صاحب نے اج کے اجلاس میں یہ کہا تھا کہ اپ یوں کیجیے کہ سپریم کورٹ کے جو پانچ سینیئر ججز ہیں جس میں چیف جسٹس ی افریدی ہیں دستور علی شاہ ہیں منیب اختر ہے امیر الدین خان ہے جمال خان مدد کہ ان پر مشتمل دکھائی لیکن اس تجویز کو رد کر دیا۔
اچھا اب جب یہ سب کچھ ہو گیا اس کے بعد جناب علی ہوا یہ ہے کہ ایک دو کمیٹیز بنا دی گئی ایک سپریم کورٹ کی پریکٹس ان پروسیجر کمیٹی ہے اس میں چونکہ جیسے منیب کو نکالنا تھا تو جسٹس یحی افریدی اور جسٹس منصور علی شاہ اور ائینی بینچ کے سربرا جسٹس امیر الدین خان سپریم کورٹ کی پریکٹس ان پروسیجر کمیٹی کے اندر شامل ہو تو یعنی سپریم کورٹ جسٹس یحی افریدی صاحب کے اس نے بھی امیر الدین خان شامل ہو گئے ۔
اب ائینی بینچز کے بھی پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی بن گئی ہے علی مدر ہے یعنی تین سینیٹ جج ہیں تو جسٹس امین الدین خان اس کمیٹی کے سربراہ یعنی اندازہ کیجئے کہ سپریم کورٹ کی دونوں پریکٹس اسٹیشن کمیٹیز سپریم کورٹ کی اور ایک حکومتی اس کو سپریم کورٹ کہیں یا حکومتی چیف جسٹس کی کورٹ کہیں اس کے اندر بھی امیر الدین خوار ہے لیکن ائینی بینچز کی پریکٹس اینڈ پروسی تو اس طریقے سے حکومت کا انتخاب جسٹس امین الدین خان اب اپ نے صوبوں کی نمائندگی بھی نہیں دی اپ نے سمیورٹی کا پرنسپل بھی سامنے نہیں رکھا تو پھر اس بنیاد کے اوپر یہ ائینی بنا ہے ۔
یہ سمجھ نہیں اتی اور اب کیا پریزائڈنگ جج کو ہم حکومتی چیف جسٹس کہہ کے مخاطب کر لیا کریں یا کس نام سے مخاطب کریں یہ بہت ہی امپورٹنٹ ہے اب دو تین ڈویلپمنٹس ہیں ایک پارٹن تحریک انصاف نے مولانا فضل الرحمان سے ا ملاقات کی ہے اور اسد کیسے صاحب جو ہیں ان کے گھر گئے اور جو قانون سازی ہوئی ہے اس میں ملاقات ہوئی ہے نمبر ٹو عمران خان کے وکیل جو فیصل چوہدری ہیں وہ عمران خان سے اج جیل میں ملے۔
اور اس کے بعد وہ عمران خان کا خصوصی پیغام لے کر مولانا فضل الرحمن کے گھر گئے اور عمران خان نے اج اڈیالہ جیل میں اس ساری صورتحال کے اوپر گفتگو کی ہے اور اس گفتگو کے اوپر انہوں نے کیا کہا ہے میں اپ کو بتا دیتا ہوں انہوں نے کہا ہے جی پاکستانی عوام کو ملک پر مسلط قبضہ اور ایکسٹینشن مافیا کے خلاف نکلنا ہوگا ورنہ ہماری انے والے نسلیں بھی چیونٹیوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائے گی مزید کہا ملک پر قبضہ مافیا اور ایکسٹینشن مافیا کا تسلط ہے جو اپنے اقتدار اور قبضے کو تول دینے کے لیے ہر ایک گنڈا اپنا رہا ہے جس کی نہ ائین اجازت دیتا ہے نہ اور نہ ہی سیاسی اخلاقیات اجازت دیتی ہے۔
26ویں ارہی ترمیم اور ایکسٹینشن کے لیے کی گئی قانون سازی اسی کا حصہ ہے عدالتوں اور پارلیمنٹ کو بھی روندا جا رہا ہے اور عوام کو بھی جو ایکسٹینشن دی گئی جب حریت اور قانون کی حکمرانی اور عوام کے حقوق کا قتل ہے ایکسٹینشن اور قبضے سے ادارے مضبوط نہیں کمزور ہوتے ہیں قوم اپنے لیے کھڑی ہو اور منظم ہو کر پل امن احتجاج کرے کیونکہ جب تک ملک میں انصاف کا انقلاب نہیں ائے گا تب تک جمہوریت نہیں ہوگی انصاف کا انقلاب لانے کے لیے تمام لوگوں کو نکلنا ہوگا یا کسی ایک شخص یا پارٹی کا نہیں پورے پاکستان کی بقا اور سالمیت کا معاملہ ہے ۔
اب یہ سب جو ہے ہونے کے بعد لوگ مجھے اج جن لوگوں سے باتیں ہوئی اور جو کچھ ہوا لوگ مایوسی لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ ذبح کر دیا گیا دل کے نظام لیکن جس میں بہت سارے لوگ نوازے گئے ہیں اب معلوم نہیں ہے کہ اصل انصاف سپریم کورٹ کیا کرے گی یا حکومتی سپریم کورٹ یا حکومتی چیف جسٹس اپنا بہت سارا خیال رکھیے گا خدا حافظ