تحریک انصاف کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ سے خبر

تحریک انصاف کیلئے اسلام آباد ہائی کورٹ سے خبر

اگر اپ سے یہ سوال پوچھا جائے کہ کون سا کیس ہے جس میں عمران خان گرفتار ہیں یا جن کو جس کیس میں جیل میں رکھا

گیا تو وہ کون سا ہے میں اپ کو ایک ایک کیس بتاتا ہوں جس سے اپ کو ائیڈیا ہوتا جائے گا ۔کہ اب معاملہ کسی اور طرف جا رہا ہے نمبر ون سائبر کیس ختم ہو چکا ہے اسلام اباد ہائی کورٹ سے عدت کیس ختم ہو چکا تو اس کے بعد کون سا کیس ہے تو سزا ہوئی سزا کے بعد سزا معطل ہوئی اور اس کی مرکزی اپیل بھی اسلام اباد ہائی کورٹ میں سماعت کے لیے مقرر ہو چکی ہے۔ تو پھر کون سا کیس ہے پھر توشاہ خانہ ٹو کیس ہے جس میں عمران خان اس وقت زیر حراست ہے اپ جانتے ہیں کہ بشرا بی بی بھی اسی کیس کے اندر زیر حراست تھی۔

 اور چند روز پہلے ان کی ضمانت ہوئی اور ضمانت ہونے کے بعد وہ پشاور گئیں پشاور سے وہ لاہور ائی ہوں وہ ابھی تک لاہور میں ہے اج لاہور میں جوہر ٹاؤن کے اندر ایک نجی کلینک کے اندر ان کی دانتوں کا چیک اپ ہوا ابھی تک وہ زمان پاک ہے ہو سکتا ہے ۔کہ وہ ایک بار پھر روانہ ہو جائے اب عمران خان کی رہائی کے حوالے سے ایک بہت سنجیدہ جو قدم ہے وہ اسلام اباد ہائی کورٹ اس سے ہمیں دکھائی دے رہا ہے جس میں جسٹس گل حسن اورنگزیب کا نام اپ نے یاد رکھنا ہے کیسے عمران خان اور اس توشہ خانہ ٹو کیس کے اندر ضمانت کی درخواست دائر کر چکے ہیں اور میں اپ کو لاک کا اصول بتاتا ہوں لا میں ہوتا یہ ہے ۔

کہ اگر دو لوگوں کے اوپر الزام ہو ایک کو ضمانت ملے تو اس بنیاد کے اوپر دوسرا بھی اپلائی کرتا ہے اور وہی قانون اس کے اوپر لاگو ہوتا ہے جس کی بنیاد کے اوپر اس کو ضمانت ملتی ہے تو عمران خان نے جس کیس میں بشہ بی بی کو ضمانت ملی اور وہ ضمانت ملنے کے بعد رہا ہو کے باہر ا چکی ہیں تو اس میں عمران خان کی جانب سے ضمانت کی درخواست دائر کی گئی ہے۔ اور اس کے اوپر اعتراضات ضرور عائد کیے گئے ہیں لیکن اسلام اباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب جو ہیں وہ اعتراضات کے اوپر کل درخواست کی سماعت کر رہے ہیں اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر کل اس درخواست کو وہ اعتراضات دور کرتے ہوئے سماعت کے لیے مقرر کر دیتے ہیں۔

 یا اس کو پرسوں کرتے ہیں تو پھر عمران خان کی یہ واحد وہ کیس ہے جس کے اندر وہ اندر زیر حراست ہے معاملہ پھر اگے جا سکتا ہے تو حکومت پریشان کیا ہے حکومت پریشان بھی ہے اور اسی لیے ڈیل ڈیل کے زور و شور سے نعرے لگائے جا رہے ہیں۔ اور اس کے ساتھ اج ایک نئی لائن لی گئی ہے اور اب اس کو جوڑا جا رہا ہے جنرل فیض حمید کے کورٹ مارشل کے ساتھ اور عرفان صدیقی جو نواز شریف کے دست راست ہیں انہوں نے اج کہا جی عمران خان کے خلاف جو سب سے کڑا مقدمہ ہے وہ نو مئی کا ہے ۔

اور جنرل فیض حمید کے کورٹ مارشل کے بعد جو ہے وہ نو مئی کیس کی شکل نکلے گی بھائی اب اگر اپ نے نو مئی کے ایک سال بھی کیا دو سال کے بعد اپ یہ سوچ رہے ہیں کہ اس کی شکل نکلے گی اور اس بنیاد کے اوپر چلیں گے۔ تو پھر میرے خیال ہے اپ کے بس کی بات نہیں ہے اپ یہ کیس نہیں لڑ سکتے اپ گھر چلے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت کو پتہ ہے۔

 کہ جسٹس گل حسن اورنگزیب کی عدالت سے عمران خان کی رہائی ہو گئی اب پھر نو مئی ہے اور نو مئی کے اندر بھی اپ جانتے ہیں کہ کچھ لوگوں کی سپریم کورٹ سے ضمانتیں ہوئی تھیں اور بڑے سنجیدہ قسم کے سوالات اٹھائے گئے تھے۔ اس میں بھی عمران خان کا نام لینے کی کوشش کی گئی تھی اور اس میں ججز نے جو بات کی تھی سابق وزیراعظم کے متعلق اس وقت تو قاضی فائض عیسی تھا تو یہ صورتحال تھی اور اب تو قاضی سے جان چھوٹ چکی ہے تو پھر کیا صورتحال بنے گی اور پھر ایک اور اہم ڈیویلپمنٹ اج اسلام اباد ہائی کورٹ سے یہ تھی کہ جسٹس سردار اعجاز نثار خان نے اج ایک اہم جو جیل روٹس کی شک ہے اس کو ائین سے متصادم قرار دیتے ہوئے کل عدم قرار دے دیا ۔

اور وہ یہ تھی کہ جیل میں قیدیوں کی ملاقات ملی سیاسی گفتگو کے اوپر پابندی نہیں ہو سکتی تو اس بنیاد کے اوپر جو ہے وہ اس معاملے کو عدالت میں چیلنج کیا گیا تھا اور وجہ یہ تھی کہ عمران خان کی ملاقاتوں کے اوپر پابندی لگائی گئی تو اس کی وجہ جو ہے وہ جیل رول کی شک 265 قرار دی گئی اور کہا گیا جی اس بنیاد کے اوپر گفتگو نہیں ہو سکتی جو ہم نے پابندی لگا دی ہے اس کو شیر افضل مرمت نے چیلنج کر دیا تھا اور اب جسٹس سردار اعجاز خان نے جیل روٹس کی شک 265 کو ائین کی شک 17 اور 19 سے متصادم قرار دیتے ہوئے کلدم قرار دے دیا ہے۔

 اور انہوں نے اپنے ارڈر میں لکھا ہے کہ پنجاب جے رولز میں کریڈیو کی ملاقات میں سیاسی گفتگو پر پابندی کے خلاف درخواست پر پنجاب حکومت سے جواب طلب کیا تو تین ماہ تک جواب جمع نہیں کرایا گیا اور بالاخر تحریری جواب کی بجائے ایک انتہائی تکنیکی اعتراض اٹھایا پنجم 265 کے دفاع نہ کرتا دے کر فیصلہ محفوظ کر لیا ۔اور اب فیصلہ انہوں نے سنا دیا ہے اور مزید انہوں نے اس کیس میں لکھا ہے کہ جیلورز 1978 میں بنائے گئے اور وہ دور جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کا دور تھا اور تب سیاسی گفتگو پر پابندی ہی ان کے مفاد میں تھی لیکن پارلیمنٹ جمہوریت اور سیاست دانوں کی ناکامی ہے۔

 کہ وہ اج تک اس شک کو ختم نہیں کر سکے جس کے بعد عدالت نے اج اس کو کلدم قرار دیا اور اب فیصلے کے مطابق عمران خان جیل میں ملاقاتوں کے دوران جو ہے وہ سیاسی گفتگو کر سکیں گے اور اپ اس کو روک نہیں سکتے اس بارے میں اج ہم نے دیکھا کہ عمر ایوب صاحب گئے ملاقات کے لیے ان کو ملاقات نہیں کرنے دی گئی ۔اور یہ کہا گیا کہ جی اپ بیان حلفی دیں کہ سیاسی گفتگو نہیں کریں گے یعنی جس شق کو اج اسلام اباد ہائی کورٹ نے کلدم قرار دیا ہے اس کی بنیاد کے اوپر اپ پیارے حلفی مانگ رہے تھے تو ان کا جب میں ذمہ داران کا نام لیتا ہوں تو میڈیا مالکان کی ٹانگیں کانپتی ہیں ٹانگوں میں سانس ڈالے ملک کے لیے کھڑے ہو جائیں تو اب وہ شک بھی عدالت نے اڑا دی ہے تو لگتا یہ ہے کہ عمران خان کے اوپر جو پابندیاں ہیں وہ ایک ایک کر کے اڑتی ہوئی دکھائی دینی ہے۔

 اور اس اہم پیشرفت کے دوران ایک اور بڑی امپورٹنٹ ڈیویلپمنٹ ہے اور وہ ڈیویلپمنٹ ائینی ترمیم کے حوالے سے ہے پانی ترمیم اسلام اباد ہائی کورٹ کو چھوڑ کے باقی جب ان کے اوپر چیلنج ہوتی ہوئی ہم نے دیکھی ہے لیکن اس کو ہوا یہ کہ سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا اور سندھ ہائی کورٹ کا تحریری جو حکم نامہ ایا ہے وہ پڑھتا ہوں۔ اور پھر میں اپ کو دھچکا بتاتا ہوںکے مطابق دو درخواستوں کے لیے 26ویں یعنی ترمیم کے کچھ ارٹیکلز کو چیلنج کیا گیا ہے عدالت سمستی ہے کہ انی ترمیم کے بارے سوالات ائینی بینچ کے سامنے رکھے جائیں قرارداد اور ائینی بینچز کی عدم موجودگی میں عدالت اپنا دائرہ اختیار استعمال کر رہی ہے یعنی انہوں نے بتایا جو کہ طریقہ کار یہ ہے کہ ہائی کورٹس کی سطح کے اوپر جو اسمبلی ہے صوبے کی وہ قرارداد منظور کرے گی جس کی بنیاد کے اوپر ائینی بینچ بنے گا۔

 تو ان کے مطابق چونکہ ائینی بحث نہیں بنا اور قرارداد بھی نہیں ائی تو اس لیے ہم جو ہے اس کو اختیار استعمال کر رہے ہیں اگر دیکھا جائے تو یہی معاملہ ا اس کا پیش ا وفاق کی سطح کے اوپر ہے کہ وہاں پہ بھی ائنی بینچ نہیں بنے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر اسلام اباد کے اندر سپریم کورٹ میں اس کو چیلنج کیا گیا ہے تو سپریم کورٹ اس معاملے کو ٹیک اپ کر سکتی ہے۔

 اور وہ یہ کہہ سکتی ہے اسی طرح سے کہ چونکہ اینی بیگز نہیں بنا تو سپریم کورٹ ائینی بینچ کے اختیارات جو ہے وہ استعمال کرے گی تو کس طریقے سے ائین کے لیے اچھی خبریں تو خیر تھی ان سے بھی نہیں ا رہی ہم نے دیکھا کہ پی ائی اے کی نجکاری کرنا چاہ رہے تھے اور وہاں پہ جو بلو ورلڈ سٹی والے ہیں انہوں نے 10 ارب روپے کی صرف مولی لگائی وہ بھی 60 فیصد شیئرز کے لیے پھر حکومت نے کہا نہیں اپ اس کو اوپر لے کے جائیں اور جو ریزرو پرائس رکھی گئی ہے۔ اس تک لے کے جائے تو انہوں نے کہا نہیں جی ہم تو نہیں لے کے جائیں گے اگر اپ چلا سکتے ہیں تو حکومت خود چلائے تو اس طریقے سے اس حکومت کے اوپر اتنا اعتماد ہے یا اس حکومت کی اتنی کامیاب پالیسیز ہیں کہ اج پی ائی اے کی نجکاری بھی نہیں ہو سکی۔

 اور اب حکومت ائی ایم ایف کو کیا جواب دے گی اور ائی ایم ایف کو امریکہ کو اپ پہلے انکھیں دکھا رہے ہیں خط لکھ کے کہ اپ ہمارے اندرونی معاملات کے اندر مداخلت کر رہے ہیں تو وہاں سے بڑا انٹرسٹنگ پینل ہوگا ایک خبر اصف زرداری سے متعلق ہے اور بتایا گیا جی جو اصف زرداری ہیں وہ گزشتہ رات دبئی ایئرپورٹ پہنچنے پر جہاز سے اتر رہے تھے ۔تو ان کے پاؤں کا فریکچر ہو گیا ہے اور ڈاکٹرز نے ہسپتال میں اصف زرداری کے پاؤں پر چار ہفتے کے لیے پلستر کر دیا ہے اور ان کو گھر منتقل کر دیا گیا ہے اور چار ہفتے اب ارام کا مشورہ دیا گیا ہے اصف زرداری جو ہیں اگر ان کے پاؤں کا فریکچر ہو گیا ہے۔

 اور چار ہفتے کا ڈاکٹر ان کو میٹرس دے دیا ہے تو پھر اپ نے ابھی 27ویں ائنی ترمیم کرنی ہے اور 27ویں ائینی ترمیم کو لے کے اصف زرداری ا اگر اس پوری ایکویشن سے مس ہو جاتے ہیں تو پھر کیا ہوگا یہ بھی ایک بہت انٹرسٹنگ پہلو ہے۔ اور پھر کس طریقے سے حکومت اس کو مینج کرے گی یہ دیکھنا پڑے گا چلیں دیکھ لیتے ہیں کہ اس کے اوپر کیا ہوتا ہے تو اس دوران بلاول کی ایک نئی تصویر بھی سامنے ائی ہے اس کے اوپر بھی بہت گورنمنٹس دیکھنے پڑ رہے ہیں اور بہت اس کے اوپر سوشل میڈیا کے اوپر ڈسکشن ہو رہی ہے تو یہ جناب عالی اب تک کی اپڈیٹ۔

Leave a Comment