عمران خان کے معاملے پر اسلام آباد  والوں کا یوٹرن

میں نے اپ کو بتایا تھا کہ اج عمران خان کا چیک اپ ہوا ہے اور یہ جو چیک اپ ہے میں نے اس وقت اپ کو بتایا تھا کہ بھی یہی اطلاع ائی ہے کہ چیک اپ ہو گیا ہے لیکن وہ چیک اپ کیسا تھا یا کیا کچھ اس میں ہوا بتایا گیا ہے کہ وہ معمول کا چیک اپ تھا جو سرکاری ڈاکٹرز نے کیا جس میں عام طور پہ بلڈ پریشر دیکھا جاتا ہے دل کی دھڑکن چیک کر لی یا کوئی شوگر وگر چیک کر لی تو جیل ڈاکٹرز نے روٹین کا چیک اپ کیا ہے لیکن ان کا کوئی تفصیلی معائنہ ان کے کوئی ٹیسٹ جس کو اپ کہتے ہیں خون کے نمونے لے کے بلڈ ٹیسٹ جس کو کہتے ہیں اس قسم کی بات نہیں کی گئی ۔

اور تحریک انصاف کا مطالبہ یہی تھا لیکن اج کچھ عجیب سی بات ہے کہ کیا اسلام اباد والے جو ہے وہ یو ٹرن لے رہے ہیں عمران خان والے معاملے کے اوپر یہ کیا معاملہ ہے اج ایک ڈیویلپمنٹ ہوئی ہے اور ڈیویلپمنٹ یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ایک ا درخواست جو ہے وہ جمع کرائی گئی ہے اور درخواست جمع کروانے کے حوالے سے یہ وفاقی حکومت کو جمع کروائی گئی ہے اور یہ کہا گیا ہے کہ جناب ہم ملاقات کرنا چاہتے ہیں دو نام تجویز کیے گئے ہیں کہ وہ عمران خان سے ملاقات کرنا چاہتے ہیں اس میں ایک تو بیرسٹر گوہر کا نام ہے اور دوسرا صاحبزادہ حامد رضا کی حوالے سے یہ درخواست ہے تو درخواست بیرسٹر گور علی خان نے جمع کرائی ہے اور یہ جو ہوم منسٹری ہے فیڈرل ہوم منسٹری محسن نقوی کی اس کو درخواست جمع کرائی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ اڈیالہ جیل میں عمران خان سے فوری طور پر ملاقات کی اجازت دی جائے اور یہ کہا گیا ہے کہ تین کافی دنوں سے بتایا گیا کہ تین اکتوبر سے لے کے اب تک کوئی ملاقات نہیں ہوئی تو ہمیں ملاقات کا موقع دیا جائے ۔

اب اس حوالے سے دو خبریں ہیں پہلی خبر یہ ہے لوگوں نے یہ سوال اٹھایا کہ اڈیالہ جیل تو وفاقی حکومت کی ڈومین میں نہیں اتی اور یہ اتی ہے ڈومین پنجاب حکومت کی اور عمران خان کی ملاقاتوں کی جو پابندی ہے وہ محسن نقوی کی وزارت داخلہ نہیں لگائی بلکہ یہ تو پنجاب حکومت نے لگائی ہے تو جب یہ میٹر پنجاب حکومت کا ہے تو اپ وفاقی حکومت کو درخواست کیوں دے رہے ہیں ا یہ بھی ایک سوال ہے دوسری اطلاعت اسلام اباد سے یہ ہے کہ اس سارے سنریو کے اندر چونکہ پاکستان تحریک انصاف نے 15 تاریخ کی احتجاج کی کال دے رکھی ہے اور اب سے تھوڑی دیر پہلے ساقدار اور عطا تارڑ ڈی چوک کے اندر گفتگو کر رہے تھے تو اب تو ایون اسحاق دار نے پاکستان تحریک انصاف سے 15 اکتوبر کی جو کال ہے وہ واپس لینے کے حوالے سے درخواست کی ہے ۔

اس کو چھوڑ کے اپ کو ایک اور جو فون والا معاملہ ہے اج ایک اہم رابطہ ہوا ہے پاکستان تحریک انصاف اور مولانا فضل الرحمن صاحب کے درمیان یہ کال ہوئی ہے فضل الرحمان صاحب اور اسد قیصر صاحب کے درمیان اور اس کے اندر مولانا صاحب نے بھی پاکستان تحریک انصاف سے شنگہائی جو تعاون تنظیم کا اجلاس ہے اس کے تناظر میں یہ کہا ہے کہ اپ اس اجلاس کو فلحال مخر کریں ساتھ انہوں نے کہا جی عمران خان کو طبی سہولیات ملنی چاہیے اور ان کے جو ذاتی معالج ہیں ان کے جو ڈاکٹر ہیں ان کو رسائی دی جائے اب جب یہ ساری بات ہوئی ہے تو سب کے بیچ میں ڈویلپمنٹ کیا ہے ڈیویلپمنٹ یہ ہے کہ تحریک انصاف کی درخواست جمع ہو گئی ہے ایا یہ کسی انڈرسٹینڈنگ کی بنیاد کے اوپر جمع ہوئی ہے ۔

کیونکہ دو خبریں ہیں اب نام تو بریسٹر گوہر کا اور صاحبزادہ حامد رضا کا ہے ایک خبر یہ ہے کہ ملاقات کروا دی جائے ملاقات ہو جائے گی کیونکہ وہ جب بات کر رہے ہیں تو اپ ملاقات کروا دیں دوسری خبر یہ ہے کہ ملاقات کروائی کس سے جائے گی کیا پولیٹیکل لیڈرشپ سے ملاقات کروائی جائے عمران خان کوئی بات کریں گے کوئی بیان دیں گے کوئی ائندہ کا لاہ عمل دیں گے کیا یہ ہونے دیا جائے دوسری خبر یہ ہے کہ نہیں یوں نہ کیا جائے بلکہ جو ان کے ڈاکٹرز ہیں جو ان کے ذاتی ڈاکٹرز ہیں جیسے اپ نے دیکھا کہ شوکت خانم کے ڈاکٹرز ان کا ٹیسٹ پریس کرتے ہیں تو ان کو ملاقات کرنے دی جائے ۔

اور ایک ڈاکٹر بھیج دیا جائے اور ان کو کہا جائے اپ معائنہ کر لیں اور کوئی اس قسم کی بات نہ ہو تو یہ ایک راستہ نکلنے کی یا صورتحال اگر یہ سب ہوتا ہے تو اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں حکومت دباؤ کے اندر ہے اور نمبر ٹو شاید کہیں سے تحریک انصاف کو کوئی سگنل دیا جا رہا ہے کہ ہم بات کر سکتے ہیں ہم راستہ نکال سکتے ہیں چیزیں ہو سکتے ہیں جو کہ عاطف خان صاحب نے کل نئی مشرو بٹ صاحب کے ساتھ کیا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ دونوں اطراف کسی چینل سے اپس میں رابطے میں ہوں یا کوئی بات چیت کر رہے ہوں اب میں نے اس سب کے بیچ میں جو عمران خان کو یہ سب کیا گیا ہے اس کی وجہ کیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اپ نے ائینی ترمیم کرنی ہے قاضی فائض عیسی صاحب کے حوالے سے ان کو ائینی عدالت میں لے کر جانے کے حوالے سے اج اخبار کے اندر ایک اور طائر خلیل کی خبر لگوائی گئی ہے جس میں کہا گیا جی چیف جسٹس کی جو تقریب حلف برداری ہے وہ 25 اکتوبر کو ایوان صدر میں ہوگی اب چیف جسٹس کون ہوگا یہی تو سوال ہے کیا جیسے یحیی افریدی کو چیف جسٹس کا وہ دل والا ہے۔

 اپ جو ووٹ ہیں جو سینٹ کے اندر وہاں پہ اطلاعت ہے کہ تحریک انصاف کے کچھ لوگوں کو شاید توڑا گیا ہے ایک تو سینٹر سیف اللہ ابڑو کی گرفتاری کے اوپر بہت زیادہ سواریاں نشانہ لیکن میرے خیال سے یہ کہہ دینا کہ کوئی ٹوٹ گیا ہے وفاداری تبدیل کر لی ہے بہت کم لز وقت ہوگا ہم نے یہ الیکشن سے پہلے الیکشن کے بعد بھی سن والے کوئی نہیں ٹوٹا لوگ وہیں کے وہیں کھڑے ہیں تو میرے خیال سے لوگوں کے اوپر دباؤ ہے بہت پریشر ہے ا اگر یہ پریشر یا دباؤ نہ ہوتا تو بڑائی صاحب کا یا کسی اور کے وہ ڈیرے وہ پلازے وہ کاروبار وہ سب نہ گرائے جاتے ۔

سیل لگ کے جاتے انتظامی اختیارات استعمال نہ کیے جاتے اور ایک اور مولانا صاحب کا جو طریق انصاف کا رابطہ ہے اس میں ایک اور بات تجویز کی گئی ہے ایک تو اس وقت کیسے صاحب نے کہا جی ہماری جو ائینی مسودہ ہے اس کے اوپر بڑی تفصیل کے ساتھ گفتگو ہوئی ہے اور جو جمعیت علماء اسلام کا انہی مسودہ ہے اس پہ اکثر نکات پہ دونوں جماعتوں کے درمیان ہم اہنگی پائی جاتی ہے لیکن ہم نے مزید غور و فکر کے لیے 17 اکتوبر کو دونوں جماعتوں کا اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اپوزیشن جماعتوں کے مشترکہ مسودے کو حتمی شکل دی جائے گی اور انہوں نے کہا جی میں یہ اپنے تجاویز پارٹی کے سامنے رکھوں گا اور اس کے بعد میں اپ کو جواب دوں گا جس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور مولا صاحب جو ہیں اس کو کھینچ کھینچ کے 17 تک لے کے جا رہے ہیں اور 17 کو ملاقات ہوتی ہے تو ہو سکتا ہے وہ مزید ٹائم مانگ لے ۔

اب حکومت یا کوئی اور اپنے طور پر نمبر تو پورے کر رہا ہے لیکن ساتھ ساتھ یہ چیزیں بھی ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں اب حکومت پریشان بھی ہے پریشان اس طریقے سے ہے کہ گرفتاریاں وہ سب بھی ہو رہا ہے اور پھر ہم نے دیکھا کہ بلاول زرداری تو پنجاب ہاؤس چلے گئے تھے نواز شریف سے ملنے کے لیے بالکل ٹھیک ہے ملاقاتیں کرنا اپ کا حق ہے اور اب اطلاعات یہ ہیں کہ اج ایک بار پھر بلاول زرداری اور نواز شریف کے درمیان ٹیلیفونک رابطہ ہوا ہے اور جس میں ائینی ترمیم کے حوالے سے خاص کر جو جے یو ائی کے ساتھ بات چیت ہے اس کے اوپر ان کو پیشرف سے اگاہ کیا گیا ہے اور اب اندازہ لگائیے کہ بلاول زرداری اس کی ذمہ داری لے رہے ہیں کہ وہ ہر صورت ا اس ترمیم کو یا اس چیز کو اگے پرسو کرنا چاہتے ہیں اور گو کہ ایک جانب وہ یہ چیزیں کر رہے ہیں اور پنجاب میں ان کی گورننس سردار سلیم حیدر صاحب کہہ رہے ہیں دیکھیں جی وہ پیپلز پارٹی اور نون لیگ کا جو اتحاد ہے وہ مجبوری ہے۔

 یہ کیسی مجبوری ہے جس میں اپ حکومتیں انجوائے کرتے ہیں جس میں اپ وزارت انجوائے کرتے ہیں اور باقی باتیں جو ہے وہ اپ مجبوری کی صورت میں کہہ دیتے ہیں اج کل پیپلز پارٹی کو تو وہ کوئی نام ہی انتخابی نشان ہی کوئی مجبوری والا دے دینا چاہیے کہ اوپر سے لے کے نیچے تک ان کی جو قیادت ہے وہ مجبوری مجبوری کر رہی ہے اچھا ایک ڈیویلپمنٹ میں اپ کو اور کرنا چاہتا ہوں بطور پاکستانی ہم سب کرکٹ بہت پسند بھی کرتے ہیں کرکٹ کو دیکھتے بھی ہیں قومیں کرکٹ کا کریز بھی ہے لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ پچھلے تھوڑے عرصے میں پاکستان کرکٹ ٹیم جس طرح زوال کا شکار ہوئی ہے اور جس طرح بدترین کارکردگی جو انگلینڈ کے ہاتھوں ملتان میں ہوا ہے تو اس کے بعد بتایا گیا جی وہ جو ہیرا ہے وہ کسی کی انکھوں کا تارا محسن نقوی اس نے جی وہ کوئی ہنگامی میٹنگ کی ہے کوئی دو تین گھنٹے کی جس کے بعد یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ بابرعظم کو ٹیم سے ڈراپ کر دیا گیا ہے۔

 اور بابرعظم جو ہیں وہ اگلا ٹیسٹ میچ نہیں کھیلیں گے اصل بات یہ ہے کہ وہ ہم نے ایک محاورہ سنا تھا بندر کے ہاتھ میں ماچس لگنے والا یہ سنا تو تھا لیکن اب ہم نے کرکٹ بورڈ کے اندر وہ ماچس بندروں کے ہاتھ میں اتی بھی عملی طور پہ دیکھ لی ہے اور اس کی وجہ سے بھائی بابرعظم پاکستان کی تاریخ کا بہترین بیٹسمین جو ہم نے پیدا کیا ہے اور اپ اپنی نالائقیاں اپنی کمزوریاں محسن نقوی کی کیا کریڈیبلٹی ہے محسن نقوی کا کرکٹ سے کیا تعلق ہے اس لیے کہ وہ کسی کو پسند ہے اس لیے کہ وہ کسی کی انکھوں کا تارا ہے اس لیے کہ وہ کسی کا چیتا ہے اور اپ نے اس کو بدلے میں انعام میں کرکٹ بورڈ کی سربراہی دی اور اس نے بیڑا غرق کر دیا ہر چیز کا اور اپ کیا کر رہے ہیں بابرعظم کو ڈراپ کریں بھائی محسن نقوی سے جان چھڑاؤ اس قوم کی بابرعظم مسئلہ نہیں ہے یہ ہیرے اپ کا مسئلہ ہے اپنا بہت سارا خیال رکھیے گا خدا حافظ

Leave a Comment