ڈونلڈ ٹرمپ الیکشن کیسے جیتا
سب سے بڑے سوالات ہیں جو اپ سب کے دماغ میں اور اس کے اوپر میں یہ وی لاگ کرنے جا رہا ہوں سب سے پہلے تھوڑا سا امریکن الیکشن کو دیکھ لیتے ہو اس نے پوری دنیا کے لیے ایک نئی سچویشن پیدا کرتی صورتحال بحثی نہیں ہے جیسی دنیا کے لیے ایک دن پہلے تک تھی 24 گھنٹے میں بہت کچھ بدل چکا ہے اور ایک ایسا الیکشن جس کی ا ساری کی سارا جو دنیا کا میڈیا تھا یا عالمی میڈیا تھا جتنی میڈیا کی طاقت ہے جتنی اسٹیبلشمنٹ کی طاقت ہے اس کو استعمال کیا گیا ٹرونلڈ ٹرمپ کو ریپبلیکنس کو یہ الیکشن ہرانے کے لیے لیکن حیران کن طور پر وہ جیت گئے۔
اور انہوں نے بہت بڑی فتح حاصل کی ہے مثال کے طور پہ جب 2020 کا الیکشن ہوا تھا نا تو سات سوئنگ سٹیٹس ہیں امریکہ میں ان ساتھ میں سے چھ میں جو بائیڈن جیت گئے تھے الیکشن لیکن اس مرتبہ ا جو ہے اس وقت صرف ایک سٹیٹ تھی جہاں پہ نارتھ کیرولینا وہاں پہ ٹرمپ نے جیتا تھا ساتھ میں نے صرف ایک جیت دی تھی اس مرتبہ تقریبا ساری جیت لی ہے ڈونلڈ ٹرمپ نے تو سویپ کیا ہے سچویشن بہت مختلف ہو گئی ہے اور دنیا کے لیے تو ہوئی ہے لیکن پاکستان کے لیے بڑا پرابلم ہو گیا ہے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے لیے اور پاکستان کی حکومت کے لیے یہ پرابلم پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے لیے کیوں ہے اور یہ بہت ساری جگہوں پہ یہ بے چینی کیوں پیدا ہو گئی ہے یہ اپ کو نظر ارہی ہوگی ہمارے کچھ صحافیوں کے ٹویٹس کے اندر کچھ ان کے چہروں کے تاثرات اپ دیکھ کر جہاں ٹرانسمیشنز کی جا رہی ٹی وی چینل پہ وہاں پہ اپ نے اترے ہوئے لمکے ہوئے چہرے بھی دیکھے ہوں گے۔
یہ سارا کچھ کیوں ہو رہا ہے اور یہ اتنی عجیب و غریب صورتحال سے اور اس بے چینی سے کیوں دو چار ہے یہ میں اپ کو حقائق کے ساتھ بتاؤں گا چار بڑے سوالات ہیں جو ہمارے پاس ہیں اور ان کے فیکٹس میں اپ کے سامنے رکھتا ہوں نمبر ایک ٹرمپ میں امریکہ نے اسٹیبلشمنٹ کو کیسے شکست دے دی یہ سب سے بڑا سوال ہے یہ کیسے ہو سکتا ہے پاکستان میں تو اسٹیبلشمنٹ نہیں ہاری اور امریکہ میں کیسے ہار گئی دوسرا یہ ہے کہ تحریک انصاف نے ٹرمپ کو سپورٹ کیوں کیا ایک اور بڑا سوال یہ ہے کہ پاکستانی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو اب کیا خطرہ ہے امریکہ کی نئے انے والی حکومت سے اور اخری سوال یہ ہے کہ اب جو اوورسیز پاکستانی یا پاکستان تحریک انصاف ہے ان کی ایکسپیکٹیشنز کیا ہیں اور ہوگا کیا عمران خان کو واقعی باہر نکال لیں گے ۔
ڈونلڈ ٹرمپ یہ بڑے سوالات ہیں ان کے جواب ہم ڈھونڈتے ہیں لیکن سب سے پہلے جو امریکی اسٹیبلشمنٹ ہے وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو ایسے ہی اپنے لیے یا اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھتی ہے جیسے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھتی ہے یعنی اسٹیبلشمنٹ کے لیے نا بہت سارا پیسہ بہت سارے وفات اور بہت ساری چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کو وہ نہیں چھوڑ سکتی یہ امریکن اسٹیبلشمنٹ میں بھی ہے تو ڈونلڈ ٹرمپ نے ان چیزوں میں جا کر چھیڑ چھاڑ کی جہاں پہ اسٹیبلشمنٹ کو لگتا تھا یہ ان کی ریڈ لائن ہے اس کو نہیں چھیڑنا چاہیے ڈونلڈ ٹرمپ نئی پالیسیز لے کر ایا اور اس نے بہت ساری ایسی چیزیں پکڑی جہاں پہ اس نے کہا یار یہ تو میرا کام نہیں ہے یہ نہیں کرنا چاہیے اس پالیسی کو ٹھیک کرو تو اسٹیبلشمنٹ کو لگا کہ ان کی ریڈ لائن کراس ہو رہی ہے جیسا کہ پاکستان میں بہت ساری جگہوں پہ اسٹیبلشمنٹ کو لگا کہ جناب فارن پالیسی تو ہم بناتے ہیں داخلی معاملات تو ہم دیکھتے ہیں ۔
پاکستان کیسے چلے گا یہ فیصلہ تو ہم کرتے ہیں یہ کہاں سے اگیا ایک ادمی یہ کہہ دے فیصلے کر سکتا ہے تو ایگزیکٹلی یہی ہوا جو پاکستان میں ہوا کے اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان سے چھیڑ ہو گئی اور امریکہ میں اسٹیبلشمنٹ کو ڈونلڈ ٹرمپ سے چڑ ہو گئی اسٹیبلشمنٹ کو ایک ایسے شخص سے پالا پڑ گیا تھا امریکہ میں جو جنگوں کا مخالف تھا امریکہ نارملی جو پیسے بناتا ہے جو اکٹھا کرتا ہے ان کی اسٹیبلشمنٹ جو بہت پیسہ بناتی ہے اور بہت طاقتور لوگ ہیں جو ہتھیاروں کا کاروبار کرتے ہیں تو وہ جتنے بھی لوگ ہیں ان کے لیے ڈونلڈ ٹرمپ پھر قابل قبول نہیں تھا وہ اینٹی وار تھا اور یہ اس کا جو چار سالہ اس کا جو چار سالہ دور گزرا ہے پیچھے وہ اس کی گواہی بھی دیتا ہے اب ڈونلڈ ٹرمپ کی چھیڑ چھاڑ کی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈونلڈ ٹرمپ کی لڑائی ہوئی ۔
اس کے اوپر بہت سارے کیسز ہوئے اس کے اوپر بہت سارے بھونڈے الزامات لگے کیپیٹل ہل والا ایک واقعہ جو ہے اس کو لے کر ڈونلڈ ٹرمپ کے لیے وبال کھڑا کر دیا گیا اس کے اوپر جان لیوا حملہ بھی ہوا ڈونلڈ ٹرمپ کے اوپر وہ ایک الیکشن کمپین میں تھا گولی چلتی ہے اور اچانک ڈونلڈ ٹرمپ اپنے سر کو جنبش دیتا ہے ایسے وہ جو بولی تھی وہ ایگزیکٹلی ڈونلڈ ٹرمپ کی کر پٹی کے پاس سے ہٹ کر کے سر کے اس حصے سے باہر نکلنی تھی اس کی باقاعدہ ویژول موجود ہے لیکن سڈنلی ڈونلڈ ٹرمپ نے بات کرتے ہوئے اپنے سر کو ایسے جھٹکا دیا کہ جس وقت اس نے گولی کا ٹرگر دبایا شوٹر نے تو وہ گولی ڈونلڈ ٹرمپ کے کان کو چھید کر نکل گئی یہاں چوٹ لگی ڈونلڈ ٹرمپ کو اور لگی لی وہ بچ گیا جس کو اللہ رکھے اسے کون چکھے تو ڈونلڈ ٹرمپ کی زندگی بڑھی ہوئی تھی اور وہ وہاں سے بچ کر نکل گیا حالانکہ وہ سب سے جان لیوا حملہ تھا ڈونلڈ ٹرمپ نے حملہ ہونے کے بعد اپنے اوسان خطا نہیں ہوئے وہ کھڑا ہوا اس کے مقالہ رایا یہی کام عمران خان نے کیا تھا اپ کو یاد ہوگا بہت ساری سولر یہ سارا کچھ عمران خان کے ساتھ ہوا پاکستان کے اندر۔
عمران خان پہ کیسز بنے بونڈے الزامات لگے عدت والا کیس بن گیا تھوڑا فرق یہ ہے کہ یار یہ اسٹیبلشمنٹ نے نو مری کو لے کے وہ کچھ کر دیا جو کیپیٹل ہل پہ وہاں امریکہ میں اس طرح سے نہیں ہوا وہاں تو انہوں نے نکالی جی فٹی نکالی یہ والا ادمی ذمہ دار ہے اس کو فکس کرو بس یہاں تو 10 ہزار بندہ اسٹیبلشمنٹ نے پک ڑ لیا پولیس نے دہاڑیاں لگانا شروع کر دی تو پورا نظام ہی اس کام پہ لگ گیا عمران خان نے ڈونلڈ ٹرمپ کی نسبت 10 گنا زیادہ تکالیف برداشت کی عمران خان کو گولیوں سے جو لغم پہنچے وہ بھی زیادہ خوفناک تھے اور وہ مرتے بڑھتے بچے عمران خان بھی ڈونلڈ ٹرمپ ذرا زیادہ لکی تھا وہ اپنی کمپین جاری رکھ سکا دوسرا عمران خان صاحب کی عمر کیسز زیادہ بنے اور ان کو جیل میں ڈال دیا گیا یہ بھی ایک فرق ہے اگر اپ غور کریں تو عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کے حالات جو ہیں وہ ملتے جلتے ہیں ۔
اور ڈونلڈ ٹرمپ نے کیا کیا اور ایون عمران خان صاحب کے ساتھ بھی یہی ہوا ڈالر ٹرمپ نے یہ جو اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت تھی اس کو اپنا ہتھیار بنا لیا اور اس نے اس کی بنیاد کے اوپر الیکشن لڑنا شروع کیا اور امریکہ میں اس کو مقبولیت مل گئی اب امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس مقبولیت تو تھی قبولیت نہیں تھی یہاں عمران خان کے پاس بھی مقبولیت تھی قبولیت نہیں تھی عمران خان نے بھی یہی کیا کہ ان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے کیا سلوگن تھا پاکستان تحریک انصاف کا 2024 کے فروری کے الیکشن میں ظلم کا بدلہ ووٹ سے یاد ایا اپ کو ایکچولی عمران خان صاحب نے اس اسٹیبلشمنٹ کے سارے ظلم کو اپنی کمپین بنایا تھا کہ ظلم کا بدلہ ووٹ سے اسی طرح ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی یہ اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کو اپنی کمپین بنا لیا کہ ہم نے ان کو شکست دینی ہے اور وہاں پہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اسٹیبلشمنٹ کو شکست دے دی ۔
سارا کچھ ایک جیسا ہی ہے لیکن کچھ چیزوں کا فرق ہے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ امریکی اسٹیبلشمنٹ نے جتنی بھی مخالفت کی کچھ حدود ہیں جن سے وہ باہر نہیں نکلے کچھ چیزیں جنہوں نے کراس نہیں کیا لیکن پاکستان یہ اسٹیبلشمنٹ نے ان چیزوں کا پاس نہیں رکھا اب فرق کیا ہے ذرا میں اپ کو بتا دیتا ہوں نمبر ایک ٹرمپ نے اپنی الیکشن کی خود اپنی الیکشن کی کمپین خود کی ہے عمران خان جیل میں ان کی طرف ایک فوٹو باہر ائی تھی وہ اپنی الیکشن کی کمپین بھی نہیں کر سکی نمبر دو ٹرمپ نے اور ان کی پارٹی نے جلسے بھی کیے اور جلوس بھی نکالے پاکستان تحریک انصاف پہ مکمل پابندی تھی نہ وہ جلسہ کر سکتے تھے نہ وہ جلوس نکال سکتے تھے ٹرمپ کے لوگوں کو نائل نہیں کیا گیا عمران خان صاحب کے لوگوں کو جو ہے وہ نہالیوں کا سامنا کرنا پڑا پھر رکاوٹیں نہیں ڈالی گئی۔
ٹرمپ کے راستے میں یہاں پہ کاغذات نامزدگی تک پاکستان میں چھینے گئے پھر دانا ٹرمپ کے لوگ اپنے جھنڈے ریپبلیکنز کے پوسٹرز جنرل ٹرمپ کے پوسٹرز اور یہ ساری چیزیں اٹھا کر جہاں دل کرتا تھا لگاتے تھے جاتے تھے لیکن پاکستان تحریک انصاف کا جھنڈا کہیں نظر نہیں ا سکتا تھا نہ عمران خان کی فوٹو کوئی نظر ا سکتی تھی پھر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف وہاں کی اسٹیبلشمنٹ نے پورا میڈیا کھڑا کر دیا لیکن اس میڈیا نے ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ہونے کے باوجود ڈونلڈ ٹرمپ کو دکھایا بھی اس کا موقف سنایا بھی چاہے منفی کیا لیکن یہ پابندی نہیں تھی کہ اپ نے اس کی شکل ہی نہیں دکھانی پاکستان میں میڈیا پہ مکمل بائیکاٹ ہو گیا .
عمران خان کا پھر دوسرا عمران خان کے ساتھ یہ ہوا کہ ان کے جو سوشل میڈیا کے ایکٹیوسٹ ہیں جب میڈیا نے کام خراب کیا تو سوشل میڈیا پہ وہ بھی گرفتار ہونا شروع ہو گئے امریکہ میں ایسا کچھ نہیں ہوا پھر جو ٹی وی چینلز عمران خان کو سپورٹ کر رہے تھے وہ مالکان سے ٹی وی چینل ہی چھین لی ہے یا ان کو دھمکایا گیا یا ان کے کاروبار کو تباہ کیا گیا یا ان کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئی امریکہ میں ایسا نہیں ہوا جو ٹی وی فوکس نیوز اگر ٹرمپ کو سپورٹ کر رہا ہے تو کر رہا ہے پھر اسٹیبلشمنٹ اس کے اندر نہیں گھسیٹ اس لیول تک نیچے نہیں گئی امریکہ میں کوئی بھی جبری طور پہ لاپتا نہیں ہوا اس کمپین میں پاکستان میں بے شمار لوگ جبری طور پر لاپتا ہوئے صحافی بھی ہوئے جو بندے نہیں توڑے گے یہاں عمران خان کے بندے بھی توڑے گئے۔.
وہاں کی کسی عدالت نے ڈونلڈ ٹرمپ سے انتخابی نشان نہیں چھینا پاکستان میں عمران خان سے انتخابی نشان بھی قاضی فائد عیسی نے چھین لیا وہاں کی عدالت نے یہ کہا کہ یہ عوام کا حق چھن جائے گا ڈونلڈ ٹرمپ الیکشن لڑے گا اور اس کو پوری طرح الاؤ کیا یا عمران خان کو نائل کر دیا گیا انہیں الیکشن نہیں لڑنے دیا گیا بلکہ ان کا انتخابی نشان بھی چھین لیا گیا امریکہ میں انٹرنیٹ موبائل فون یہ سارا کچھ چالو رہا پاکستان میں یہ سارا کچھ بند ہو گیا امریکن الیکشن کے دوران جو صحافی وہاں پہ کورج کر رہے تھے ان میں سے کچھ سے میری بات ہوئی وہ کہہ رہے ہیں یہ کوئی خوف و ہراس نہیں تھا ۔
پاکستان میں 8 فروری 2024 کو پورا خوف و اراس کا ماحول بنایا ہوا تھا امریکہ میں رزلٹ نہیں روکے گئے لگاتار رزلٹ اتے گئے اور پتہ چل گیا کہ کون جیتا پاکستان میں رزلٹ رک گئے تھے ایک سرٹن ٹائم پیریڈ کے بعد جب پاکستان تحریک انصاف 180 سیٹیں جیت رہی تھی دو تہائی سے زیادہ اکثریت حاصل کر رہی تھی پاکستان تحریک انصاف اس وقت رزلٹ روک لیے گئے پاکستان میں اور پھر رزلٹ تبدیل کرنے کے لیے سکندر سلطان راجہ کو بلایا گیا گیم ڈالی گئی بڑے بڑے لوگ بیٹھے ایک کمرے کے اندر چند لوگوں نے بیٹھ کے پاکستان کا مستقبل ہی بدل دیا امریکہ میں جو جالی فارم 47 فارم 45 کوئی ٹیمپرنگ کوئی جعلی ووٹ کوئی وی کاؤنٹنگ کے اندر بہت سارے ووٹ ٹرمپ کے جالی کر دینا۔
یہ چیزیں نہیں ہوئی پاکستان میں یہ سارا کچھ کیا گیا اب جو ڈونلڈ ٹرمپ کو وکٹری ملی وہ ایک واضح وکٹری ہے لیکن جو عمران خان کو وکٹری ملی وہ تاریخی وکٹری ہے وہاں فرق کی بہت زیادہ ہے ڈالر ٹرمپ کی مخالف نے پھر بھی کافی ووٹ لیے ہیں لیکن عمران خان کے مخالفین ووٹ لے ہی نہیں سکے امریکہ میں عوامی مینڈیٹ کی بالاخر فتح ہو گئی اور پاکستان مکی عوامی مینڈیٹ کو پاکستان کی مینڈیٹ کی بالاخر فتح ہو گئی اور پاکستان میں عوامی مینڈیٹ کو پاکستان کے اداروں نے شکست دے دی تو اب امریکہ میں اگیا جناب ٹرمپ اور پاکستان میں عمران خان کا راستہ روک دیا گیا ہے اور جو عوامی مینڈیٹ کے ذریعے سے بنا تھا وہاں پہ وہ راستہ بن گیا اور یہاں پہ روک دیا گیا اب سوال یہ ہے کہ پاکستانی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پریشان کیوں ہے ۔
یہ سوال میں نے اپ کے لیے چھوڑا تھا نا تو اس پہ ا جاتے ہیں شریف خاندان نے اور زرداری خاندان نے اپنے زیادہ تعلقات ڈیموکریٹس کے ساتھ بنائیں کلنٹن کے دور کے اندر بڑے زبردست تعلقات نواز شریف صاحب نے کلنٹن خاندان کے ساتھ بنائے تھے ہیلری کلنٹن کو بھی انہوں نے الیکشن میں سپورٹ کیا تھا ٹرمپ کے مقابلے میں بارات اوباما کو بھی یہ سپورٹ کرتے رہے تھے جو بائیڈن کی الیکشن کمپین کے لیے ان کے لوگ بھی گئے تھے امریکہ میں اور انہوں نے پاکستانیوں کو باقاعدہ کہا تھا کہ اپ نے ووٹ ڈالنا ہے جو بائیڈن کو تو جو بائیڈن کو بھی انہوں نے پورا سپورٹ کیا تھا ڈیموکریٹ سے اسپیشلی ڈونلڈ ٹرمپ سے ان کے تعلقات اچھے نہیں رہے جب ڈونلڈ ٹرمپ صدر بنا تو امریکہ میں لابنگ کی کوشش کی شریف خاندان نے اور اسٹیبلشمنٹ نے جنرل باجوہ نے ان سب نے مل کے لیکن یہ کامیاب ہو نہیں سکے لیکن جب جو بائیڈن امریکی صدر بن گیا اور جو بائیڈن کو امریکی صدر بنایا گیا تو اس کے بعد ہوا یہ کہ لابنگ کامیاب ہو گئی پھر جو جو بائڈن انتظام یہ ہے کیونکہ جو وائڈن کا اپنا ایک مسئلہ بھی ہے عمران خان کے ساتھ ۔
تو جو بائڈن انتظامیہ نے عمران خان کو پسند نہیں کیا اور لابنگ کام کر گئی جو لابنگ جنرل باجوا کے کھاتے ڈالی جاتی ہے کہ ان کے ذریعے سے پاکستانی گورنمنٹ کا پیسہ گیا عوام کا پیسہ گیا حسین نے کہانی صاحب کا بھی نام لیا جاتا ہے اور کچھ لوگوں کے بھی تو یہ وہاں پہ ایک لابنگ ہوئی تھی امریکہ کے اندر اس لابنگ کے نتیجے میں امریکہ نے سہولت کاری کی اور پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان میں عمران خان کا تختہ الٹ کر پی ڈی ایم کو سرکار دے دی اب پاکستان یہ اسٹیبلشمنٹ کو حکومت کو پورا یقین تھا کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کبھی بھی نہیں ہارے گی بلکہ ہمیشہ امریکی اسٹیبلشمنٹ جیتے گی ڈونلڈ ٹرمپ کبھی بھی نہیں جیت سکتا لیکن تھوڑے دن پہلے جب انہیں پتہ چلا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے امکانات پڑ گئے تو ان کے ہاتھ پاؤں بھول گئے تھے۔
پھر فوری طور پہ کیا ہوا نواز شریف صاحب امریکہ گئے انہوں نے بڑی ملاقاتیں کی کوششیں کی خفیہ ملاقاتیں کی تھی کچھ کریں ڈونلڈ ٹرمپ کے دل میں رحم پیدا کریں اگر وہ ارہا ہے تو ملاقات کی بھی کوشش کی گئی کچھ لوگ یہ کہہ رہے تھے لیکن ایسا ہوا نہیں بہرحال امریکن اسٹیبلشمنٹ کو منانے کی کوششیں کی گئی پھر اصف علی زرداری جو ہے انہوں نے چائنہ کا دورہ کینسل کیا فوری طور پہ اس کے پیچھے میڈیکل ریزن بتایا جاتا ہے لیکن امریکن اس کو اگر اپ نے خوش کرنا ہے تو چائنہ کا دورہ اپ کو کینسل کرنا پڑتا ہے پھر چائنہ کے ساتھ تعلقات بھی سرد موری کا شکار کیے پاکستان نے ایسا سٹیٹمنٹ دونوں طرف سے ایا وزارت خارجہ سے بھی ایک سٹیٹمنٹ ایا چین کے حوالے سے تو یہ جو تعلقات پاکستان اور چین کے اگر میں یہ کہوں کئی ڈکٹس کے اندر کہیں پہ اتنے خراب نہیں تھے جتنے اب ہیں تو یہ بات غلط نہیں ہے شہباز شریف فوری طور پہ قطر جاتے ہیں اور سعودی عرب جاتے ہیں محمد بن سلمان کے بہترین تعلقات ہیں بہت زبردست دوستی ہے ڈونلڈ ٹرمپ کے داماد کے ساتھ بڑی زبردست دوستی ہے پکی یاری تو یہ فوری طور پہ وہاں جاتے ہیں۔
کہ وہاں سے کوشش کرتے ہیں کہ کچھ کر کے ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ اپنے تعلقات بنانے کی کوشش کریں پھر قطر جاتے ہیں کیونکہ قطر نے امریکہ کو ہمیشہ سپورٹ کیا ہے اور طالبان کے ساتھ جو مکمل ڈیل ہوئی ہے وہ دوہا میں ہوئی ہے قطر میں ہوئی ہے تو وہاں پہ بھی قطر والوں کا بھی امریکہ کے اوپر تھوڑا بہت انفلوئنس ہے ایک دوسرے کے ساتھ ان کے تعلقات ہیں تو شہباز شریف صاحب نے یہ مشن پکڑا نواز شریف صاحب نے اپنا مشن پکڑا اب یہ سارے نال کی کوشش کر رہے ہیں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کہ امریکہ میں انے والی جو نئی اسٹیبلشمنٹ ہے ۔
کیونکہ ٹرمپ بہت بڑے بڑے تبدیلیاں کرے گا اس کو شکوہ ہے جو پچھلے لوگ ہیں انہوں نے زیادتی کی ہے ٹرمپ کے ساتھ ٹرب اپنے بندے کو لے کر ائے ہی جائے گا اب 20 جنوری کو ٹرمپ نے انا ہے ہے جو ہے تب تک کیا ہوگا یہ بہت امپورٹنٹ ہے اچھا ٹرمپ کو اگر منانا ہے تو جو نئی اسٹیبلشمنٹ ا رہی ہے وہ کیسے مانے گی اور کس چیز پہ منعیا جا سکتا ہے مثال کے طور پہ یہ چاہیں گے کہ عمران خان صاحب جو ہیں ان کو فی الحال وہ حکومت ہماری نہ گرائیں عمران خان جو ہے وہ ہماری جان اس سے بچ جائے کسی طرح ہم اس سے محفوظ رہیں یہ عوامی غیض و غضب کا شکار نہ ہو یہی چیزیں چاہیں گے نا تو اس میں کیا امریکن اسٹیبلشمنٹ مدد کرے گی اس کے بدلے میں بہت بڑی چیزیں مانگے گی ۔
وہ ہو سکتا ہے وہ پاکستان کو یہ کہے اور محمد بن سلمان کے ذریعے سے کہیں کہ اپ اسرائیل کو تسلیم کر لیں بہت ممکن ہے وہ یہ کہہ سکتے ہیں اور یہ ان کی خواہش بھی ہے اور وہ اس کے بارے میں اشارے بھی دے چکے ہیں اور ڈونلڈ ٹرمپ یہ چاہتے بھی ہیں کیونکہ جیرنٹ کوسنر جو ہے وہ ماضی میں اس کے لیے رول پلے کر چکا ہے اور وہ سعودی عرب سے بھی بڑے پوزیٹو سٹیٹمنٹ محمد بن سلمان سے ایک دور میں دلوا چکا ہے تو اب اگر اپ اس چیز کو دیکھیں کہ حکومت کیا امریکہ کے بڑے بڑے مطالبات عمران خان سے بچنے کے لیے ماننے کی یہ ایک بڑی عجیب سچویشن ہے یہاں پبلک نہیں چھوڑے گی۔
انہیں تو یہ پھنس گئے بہت بری طرح پھنس گئے ہیں ڈونلڈ ٹرمپ ان کے کسی پلان کا حصہ ہی نہیں تھا انہیں ائیڈیا ہی نہیں تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کسی وقت ا جائے گا اب معاملہ یہ ہے کہ جتنا یہ وقت گزار لیں گے اتنا مشکل ہوتا جائے گا کیونکہ جتنا وقت اگے بڑھتا جائے گا اتنا مشکل ہوتا جائے گا عمران خان کو اگر ملٹری کورٹ میں ڈالنا ہے تو ان کو فورا ڈالنا پڑے گا یا کچھ بھی کرنا ہے تو فوری طور پہ کرنا پڑے گا یہی ٹائم ہے ان کے پاس ڈونلڈ ٹرمپ کے انے سے پہلے پہلے یا ان کی پالیسیز امپلیمنٹ ہونے سے پہلے پہلے ان کو بہت ساری چیزیں کرنی ہو گی پی ٹی ائی نے ڈونلڈ ٹرمپ کو کیوں سپورٹ کیا ہے جی یہ سوال ہے نا بہت سارے لوگ پوچھ رہے ہیں جس طرح سارے پاکستان کے میڈیا نے کمرہ حارث کو سپورٹ کیا جز پاکستان کی ساری سیاسی جماعتوں نے جو ہے وہ ڈیموکریٹس کو سپورٹ کیا ایسے پی ٹی ائی نے ٹرمپ کو سپورٹ کیا کیوں کیا اس کی چند وجوہات ہیں نمبر ایک یہ ہے کہ پی ٹی ائی نے دیکھا کہ ٹرمپ کو اور عمران خان کو ایک جیسے حالات کا سامنا ہے تو جب ایک جیسے حالات ہوتے ہیں نا دو لوگوں کے تو اٹومیٹکلی ایک دوسرے کے لیے ہمدردی ہو جاتی ہے۔
نمبر ایک وجہ یہ ہے نمبر دو وجہ یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے لوگ یہ سمجھتے ہیں عمران خان صاحب نے جو نیریٹو بنایا اس کے بعد کہ چوپائٹن ذمہ دار ہے جو کچھ بھی عمران خان کے ساتھ اور پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ ہوا اگر براہ راست ذمہ دار نہیں بھی ہے تب بھی جو بائیڈن کی ایک پرسرار خاموشی یا ان کی نیم رضامندی اس کے بعد پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان کے ساتھ یہ سارا کچھ کیا ہے تو دوسری وجہ یہ ہے تیسری وجہ یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے لوگ اور اوورسیز پاکستانیوں نے کیملا حیرت سے اور ڈونلڈ ٹرمپ سے الگ الگ ملاقاتیں کی تھیں اور ان دونوں سے اس بارے میں پوچھا تھا کہ پاکستان میں جمہوریت کے لیے ازادی اظہار رائے کے لیے اور رول اف لا کے لیے اور عمران خان کی ازادی کے لیے اور جو ظلم اور زیادتی وہاں پہ ہو رہی ہے اس کو روکنے کے لیے اپ کی کیا پالیسی ہے تو کمیلہ حارث جو ہے وہ متاثر نہیں کر سکی ۔
پاکستانیوں کو جب کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے اس پہ کلیئر موقف لیا تھا کہ میں اپ کے موقف کے ساتھ کھڑا ہوں گا تو پھر انہوں نے فیصلہ کیا جی ہم تو ووٹ ڈالیں گے ڈونلڈ ٹرمپ وہ اس لیے انہوں نے سپورٹ کیا تو پاکستان تحریک انصاف کی سپورٹ کی وجہ تو سمجھ ارہی ہے اور حکومت کی جو سپورٹ تھی ڈیموکریٹس کی اس کی بنا بھی سمجھ ا رہی ہے لیکن اب ٹرمپ کو انہوں نے ماضی میں اتنی گالیاں دی ہوئی ہیں چاہے وہ احسن اقبال ہے چاہے خواجہ اصف ہے چاہے بلاول زرداری ہے چاہے مریم نواز ہے چاہے یہ باقی سارے ہیں یہ لٹرم بٹن سارے جو ہیں انہوں نے ٹرمپ کو بہت برا بھلا کہا ہوا ہے ۔
ماضی میں سارے اپنی اپنی ٹویٹیں بیچارے ڈیلیٹ کر رہے ہیں یعنی اپنے اس موقف کے اوپر اپنی اس بات کے اوپر اج یہ کھڑے ہی نہیں رہ پا رہے سب اپنا اپنا منہ کالا کر رہے ہیں اپنی اپنی ٹویٹر ڈیلیٹ کر رہے ہیں اپنے اپنے بیانات جو ہیں ان کو ہٹانے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن سوشل میڈیا میں پاکستان تحریک انصاف کی فورس سب سے تگڑی ہے وہ دھڑا دھڑ اٹھا کے سکرین شاٹ لے کے لگائی جا رہے ہیں اور اتنا تو رولا پڑنا ہی نہیں تھا جتنا ڈیلیٹ کرنے کے بعد رولا پڑ گیا ہے۔