لالچ کا انجام اور ایمانداری کا پھل
اج میں ایک سٹوری بتانے جا رہا ہوں امید ہے کہ اپ لوگوں کو کافی زیادہ پسند ائے گی زیادہ ٹائم نہیں لیتے یہ کہانی ایک بالکل حقیقت پر میں بنی ہے ہوا کچھ یوں کہ ایک خاندان تھا جس کا سربراہ بوڑھا ہو چکا تھا اور سرکاری نوکری سے اس نے ریٹائرمنٹ لے لی تھی بڑی محنتوں سے ایک ایک روپیہ جوڑ کر اس نے گھر بنایا تھا اس کے دو بیٹے تھے اور بیوی اس کی زیادہ ذہین نہیں تھی اور ایک بڑے بیٹے کی طرف اس کا جھکاؤ زیادہ رہتا تھا حالات گزرتے گئے۔
جب اخراجات بڑھنے لگے تو اس وقت اس کے بڑے بیٹے نے ایم بی اے کر لیا اور اس ملک کی ایک اچھی کمپنی کے اندر نوکری کرنے لگ گیا دوسرا بیٹا اس کا تھوڑا نالائق تھا لیکن اس نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے اندر ماسٹر کی ڈگری حاصل کی تھی گھر پر اکیلا رہتا ہر وقت گیمیں کھیلتا اور گیمیں کھیل کر کچھ پیسے کماتا تھا ان لائن تھوڑے بہت کام کر کے پیسے کما لیتا تھا سب پہ اس کو نکما اور نکٹو کہتے تھے بات جب اگے بڑھی تو بڑے بیٹے کی شادی کا ٹائم ہوا ایک پارٹی کے اندر اس کے والد گئے جہاں پر اسے اس کے ایک دوست نے بلایا تھا وہاں پر اس نے دیکھا کہ اس کو ایک لڑکی پسند اگئی ہے۔
تو اس سے وہ شادی کرنا چاہتا ہے اس نے اپنے باپ سے اظہار کیا کہ مجھے اس لڑکی سے شادی کرنی ہے باپ نے کہا یہ تو بہت اچھی بات ہے میں بھی چاہتا ہوں تم شادی کر لو اور یہ جو لڑکی تم نے پسند کی ہے یہ تو میرے بہت اچھے دوست کی بیٹی ہے تو یہ تو ہمیں ہر صورت میں مل جائے گی جب بات اگے بڑھی تو لڑکی والوں نے ہاں کر دیا کیونکہ لڑکی کو جس طرح کا اپنا خوابوں کا شہزادہ چاہیے تھا وہ ہر لحاظ سے پورا اترتا تھا شادی کی تیاریاں اہستہ اہستہ ہونے لگ گئیں اور زور و شور سے تیاری ہو رہی تھی شادی کے دن جیسے ہی قریب ائے اس نے کہا بڑے لڑکے نے کہ میں جاتا ہوں اور چھٹیاں لیتا ہوں دفتر سے وہ گیا اور اس نے ایک درخواست لکھی کہ مجھے 20 دن کی چھٹی چاہیے جو کمپنی کی مالکن تھی اس نے بولا کہ تمہیں کیوں چھٹی چاہیے بتایا گیا کہ میں شادی کر رہا ہوں اس مالکن کو اس کی بات اچھی نہ لگی کیونکہ وہ اندر ہی اندر اسے پسند کرنے لگ گئی تھی وہ اپنے دفتر میں رونے لگ گئی کہ میں نے یہ سب کچھ تیرے لیے کیا میں تمہیں پسند کرتی تھی اور تم کسی اور سے شادی کر رہے ہو اس نے جیسے یہ بات سنی اس کے دل کے اندر لڑکے کے لالچ انا شروع ہو گیا لڑکا فل لالچی ہو گی۔
ا اور اس نے سوچا کہ اگر یہ مالک نے مجھ سے شادی کر لے گی تو یہ کمپنی میری ہو جائے گی میں جیسا چاہوں گا ویسا کروں گا وہ واپس گھر ایا اس نے کافی دیر سوچا کہ لالچ بہت اچھی چیز ہے اور لالچ میں پڑھ کے مجھے کر لیتا ہوں جبکہ اس کے برعکس لالچ بہت بری بلایا اور اس کا انجام اسے ملے گا اہستہ اہستہ بڑھتے بڑھتے بات یہاں تک اگئی کہ جس دن اس کی شادی تھی اس نے شادی سے لڑکے نے انکار کر دیا کہ میں شادی نہیں کرنا چاہتا۔
یہاں پر میں اپ لوگوں کو نام بتاتا چلوں جو بڑا لڑکا ہے اس کا نام عمر ہے چھوٹے کا نام صدیق ہے ان کے باپ کا نام جمال ہے اور ان کی والدہ جو جمال کی بیوی ہے اس کا نام سائرہ ہے جمال کا ایک بیٹی بھی ہے جس کا نام دعا ہے اس لڑکی سے اس کی شادی ہو رہی تھی عمر کی اس کا نام سمرا ہے۔
اس کے انکار کے بعد جمال اور اس کی بیوی سائرہ کافی زیادہ پریشان ہو جاتے ہیں کہ شادی کے دن ہمارے بیٹے عمر نے انکار کر دیا ہے پوری برادری اور رشتہ دار ائے ہوئے ہیں اور ہماری ناک کٹوا دی ہے جبکہ عمر اپنی امیر لور کے چکروں میں بہت کچھ کر رہا ہوتا ہے جو اسے نہیں کرنا چاہیے وہ سیدھا چلا جاتا ہے مالکن کے پاس اور اسے کہتا ہے کہ میں اپ سے شادی کرنے کے لیے تیار ہوں اور میں نے گھر والی شادی سے انکار کر دیا ہے اس کے بعد سارے لوگ کافی زیادہ پریشان ہوتے ہیں یہاں پر سب سے زیادہ مشکل میں عمر ا جاتا ہے سوری صدیق زیادہ پریشانی میں ا جاتا ہے کیونکہ اس کے بھائی نے انکار کر دیا تھا اور جو اس کی باپ بھی انے والی تھی وہ کافی زیادہ اپسیٹ ہو جاتی ہے وہ اس کے گھر جاتے ہیں پوری جمال کی فیملی ان سے معافی مانگنے کے لیے کہ ہمارے بیٹے نے انکار کر دیا ہے ہم اس پر بہت زیادہ شرمندہ ہیں۔
یہاں پر اس کی وہ لڑکی جس کا نام سبرا ہے وہ جا کر صدیق کو بولتی ہے کہ کیا تم مجھ سے شادی کرو گے کیونکہ تمہارے بھائی نے میرے گھر کی عزت کو مٹی میں رول دیا ہے تو اگر تم شادی کر لو تو میں پوری زندگی تمہاری احسان مند رہوں گی اور میرے خاندان کی عزت بھی بچ جائے گی یہ بات کرنے کے بعد جب سب لوگ بیٹھے ہوتے ہیں اور معافی ہو جمال مانگ رہا ہوتا ہے کہ میرے بیٹے عمر نے بہت غلط کیا ہے اس پر میں شرمندہ ہوں اور معافی مانگتا ہوں تو ایک دم سے صدیق بولتا ہے کہ میں اپ کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہوں اگر سمرا کو اعتراض نہ ہو تو سمرا خوش ہو جاتی ہے کہ اس کے خاندان کی عزت بچ گئی ہے جیسے ہی وہ ہاں کرتی ہے تو دھوم دھام سے شادیوں کی تیاریاں تو نہیں ہوتی لیکن سادگی سے شادی ہو جاتی ہے اور وہ جمال بہو بنا کر صدیق کی بیوی کو گھر لے اتا ہے یہاں پر جب سب کو پتہ چلتا ہے تو ادھے لوگ خوش ہوتے ہیں کہ اچھا ہوا ہے لیکن کافی زیادہ پریشانی کا عالم عمر پر ہوتا ہے کہ عمر نے بہت زیادہ غلط کر دیا ہے اور عمر یہ کہتا ہے کہ تم نے صدیق کو بول تا ہے کہ یہ شادی نہیں کرنی چاہیے تھی یہ میری منگتر تھی تمہیں نے ایسا کیوں کیا ہے جبکہ اس جمال کی بیوی سائرہ سب سے زیادہ عزت پھر بھی اپنے بڑے بیٹے کو دیتی ہے جس نے ناک کٹوا دی تھی۔
جب وہ شادی کر لیتا ہے تو وہ اپنی بیوی کے ساتھ رہنے لگ جاتا ہے اس کے بڑے گھر میں عمر اس حال میں بہت زیادہ لالچی ہو جاتا ہے کہ جتنا زیادہ پیسہ ہو اتنا میں زیادہ امیر ہوں گا اور لوگوں میں میری عزت ہوگی اس کے ساتھ جس سے وہ شادی کرتا ہے بڑی مالکن کی ایک دوست ہوتی ہے اس کے ساتھ بھی وہ افیئر چلانا شروع کر دیتا ہے اس کا اختتام بہت برا ہوتا ہے جب وہ اس کے گھر میں رہنے لگ جاتا ہے تو پیچھے سے اس کے باپ کو ہارٹ اٹیک ہو جاتا ہے جس کو صدیق لے کر ایک پرائیویٹ ہسپتال میں چلا جاتا ہے جمال کی حالت کافی بری ہوتی ہے وہ تھوڑے بہت پیسے کماتا ہے ان لائن کاروبار کر کے ڈیٹا انٹری کا کام کرتا ہے جس سے اسے پیسے ملتے ہیں 70 سے 80 ہزار اس کی تنخواہ میں ہوتی ہے اور وہ سارے پیسے اپنے باپ کے اوپر لگانے شروع کر دیتا ہے اہستہ اہستہ پیسے ختم ہونے لگ جاتے ہیں تو وہ اپنی بیوی کا سونا بیچنے پر راضی ہو جاتا ہے کہ ہم زیور بیچ کر ابا کا علاج کرواتے ہیں اسی دوران جو عمر ہوتا ہے وہ اپنی امیر زادی بیوی کے ساتھ سوئزر لینڈ میں ہنی مون پر چلا جاتا ہے واپس اتا ہے تو اس کی کال اتی ہے اگے سے اس کی والدہ ہوتی ہے جو کہتی ہے تمہارے باپ کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے اور ہم اس ہسپتال میں ہیں وہ بھاگ کر اتا ہے کرنا شروع کر دیتا ہے۔
صدیق کی کہ تم کس جگہ پر بات کو لے کر ائے ہو تم نے اس کو کسی اچھے ہسپتال میں لے کر جانا تھا تم ادھر کیسے لے کر اگئے پھر وہ ایک مہنگے ہو ہسپتال میں لے جاتا ہے جہاں پر امیرزادی اس کا علاج کرواتی ہے اور پورے گھر کو اپنی مٹھی میں کر لیتی ہے یہ اہستہ اہستہ کام چلتا رہتا ہے کہ ایک دن ایسا اتا ہے کہ وہ امیر زادی بھی اسی گھر میں رہنے ا جاتی ہے پھر وہ الزام لگاتی ہے کہ میرے 30 لاکھ چوری ہوئے ہیں جس سے میں نے اپ لوگوں کو ایک گاڑی گفٹ کرنی تھی تو وہ صدیق اور اس کی بیوی نے چوری کیے ہیں تو میں پولیس کو بلاتی ہوں تلاشی ہوتی ہے تو وہ پیسے ان کے روم سے مل جاتے ہیں جو صدیق نے بیڈ روم اپنا بنایا ہوتا ہے یہ ایک الزام تھا جو وہ خود ان کے گھر پر نہ ہونے کے بعد وہ پیسے وہاں پر رکھتی ہے۔
وہ اس دوران گھر چھوڑ کر چلے جاتے ہیں یہ صدمہ اس کے باپ کو لگ جاتا ہے کہ میرے بیٹے نے گھر چھوڑ دیا ہے جمال دوبارہ دل کا مریض بننے لگ جاتا ہے تو وہ امیر زادی اپنے پیسوں سے ان کو محسوس کرواتی ہے کہ تم لوگ میرے محتاج ہو تم کچھ نہیں کر سکتے ہو پھر وہ امیرزادی اپنا کاروبار عمر کو دیکھ کر اپنے باپ اور والدہ کے پاس امریکہ میں چلی جاتی ہے وہاں پر کافی دن رہتی ہے پیچھے سے صدیق کا ایک سوری عمر کا ایک ساتھی ہوتا ہے جو اس کی ساری انفارمیشن امیر ازادی کے باپ کو دیتا ہے اور وہ سارے ثبوت اکٹھے کر لیتے ہیں اور پتہ چلتا ہے کہ یہ اپنی کمپنی کو ڈبو کر رشوت لیتا ہے اور ابھی رو رہا ہے وہ سارے پیسے اپنے کسی اور ملک میں بھیج دیتا ہے جب ان کو ایک کسٹم افیسر کی کال اتی ہے کہ ہمارے پیسے ہمیں دو تو وہ رقم پانچ کروڑ سے زیادہ بنتی ہے وہ اس دوران بڑا پریشان ہوتا ہے کہ میرے پیسے باہر پھنسے ہوئے ہیں اب میں سے کیسے دوں تو وہ اپنے باپ کو اور ماں کو راضی کرتا ہے کہ تم لوگ گھر بیچ دو صدیق کو کافی زیادہ ضرورت ہے اور ہماری بہن کو بھی ضرورت ہے وہ اپنا اپنا حصہ مانگ رہے ہیں تو میں اپ لوگوں کو ایک الگ نیا گھر لے کر دیتا ہوں اس لالچ میں ا کر وہ اپنا مکان بھی بیچ دیتے ہیں وہ پیسے بھی عمر اپنے اکاؤنٹ میں رکھ لیتا ہے ادھر سے اس کی بیوی اتی ہے اور وہ سب کچھ دیکھ لیتی ہے اسے بتا دیا جاتا ہے وہ ثبوت اکٹھے کر کے ایک پارٹی بلاتی ہے جس میں اسے بزد کرتی ہے کہ تم میری کمپنی کو ڈبو رہے تھے اس کو جیل ہو جاتی ہے اور اس کا پانچ کروڑ بھی ڈوب جاتا ہے وہ سارے اکاؤنٹ اس کے بند کروا دیتی ہے۔
ادھر عمر جب گھر سے نکل جاتا ہے تو وہ ایک الگ کسی کباڑ خانے میں رہنے لگ جاتے ہیں کباڑ خانے کو ایک خوبصورت گھر بناتے ہیں وہاں پر رہنا شروع کر دیتے ہیں تو اسے کال اتی ہے کہ اپ نے گیم بنائی تھی اس کے چرچے بہت ہو رہے ہیں دنیا میں ہمیں پتہ ہے کہ وہ اپ نے بنائی تھی تم ایک گیم کرییٹر ہو تو اپ ہماری کمپنی میں ا جاؤ ہم اپ کو ہر سہولت دیں گے وہ جھوٹ سمجھتا ہے لیکن جب وہ ملاقات کرنے چلا جاتا ہے تو ڈیل ان کی یہ ہوتی ہے کہ گیم کا 50 پرسنٹ اس عمر کو ملے گا اور دو لاکھ ماہانہ تنخواہ بھی لے گا اس پر وہ راضی ہو جاتے ہیں اہستہ اہستہ ان کی گیم اسمانوں کو چھونے لگ جاتی ہے دنیا میں اس کے زیادہ سے زیادہ ڈاؤن لوڈر ہو جاتے ہیں اور وہ ترقی کی راہ پر چل پڑتا ہے وہ ایک اپنا گھر لے لیتا ہے گاڑی لے لیتا ہے لیکن اس دوران وہ اپنی بیوی کو کھو دیتا ہے جس کے پیٹ میں بچہ ہوتا ہے اس میں سبق یہ ملتا ہے کہ کبھی بھی پیسے کے پیچھے مت بھاگو اپنی فیملی کا بھی خیال رکھنا چاہیے اسی دوران وہ ہاسپٹل میں لے جاتے ہیں پتہ چلتا ہے کہ بچہ نہیں بچا ماں بچ گئی ہے تو عمر جو تھا وہ جیل میں ہوتا ہے اور صدیق کافی زیادہ پریشان ہوتا ہے ۔
کہ یہ میرے ساتھ کیا ہو گیا میں نے اپنا بیٹا کھو دیا تو جب عمر جیل جاتا ہے تو وہ اس کی بیوی اس کے ماں اور باپ کو بھی گھر سے دھکے دے کر نکال دیتی ہے وہ بیٹی کے گھر پہ ا جاتے ہیں تو ایک دن اس کی والدہ کو خیال اتا ہے کہ میں اپنے بیٹے صدیق کو کال کروں وہ صدیق کو کال کرتی ہے بتاتی ہے کہ تمہارے ابا کو دوبارہ ہارٹ اٹیک ہوا ہے تو وہ ہسپتال میں وہ دوڑ کر جاتا ہے سارے بل پے کرتا ہے اور جو بہن نے پیسے دیے ہوتے ہیں وہ بھی اسے لوٹا دیتا ہے اور وہ اپنے بڑے گھر میں لے کر ا جاتا ہے۔
یہاں پر اس کے ماں باپ بہت پریشان ہوتے ہیں کہ اتنا بڑا گھر کس کا ہے وہ بتاتا ہے کہ یہ میرا گھر ہے یہ گاڑی بھی میری ہے میں نے محنت کی اپ لوگوں نے مجھے کاہل کہا اور میں بن گیا لیکن میری بیوی نے مجھے کہا کہ تم کچھ کر سکتے ہو میں نے کر دکھایا پھر کچھ دنوں کے بعد اس کی ماں بڑی پریشان ہوتی ہے وہ کہتی ہے کہ عمر کو چھڑواؤ باپ کہتا ہے کہ میں کبھی بھی نہیں چھڑواؤں گا اس نے بہت برا کیا ہے میرا گھر بیچا مجھے دھکے دلوائے میں اپنے بیٹے کی ضمانت نہیں کرواؤں گا تو صدیق یہ باتیں سن لیتا ہے شروع شروع میں بھی وہ کسی ایک مسئلے میں پولیس پکڑ کر لے گئی تھی صدیق کو تو عمر نے اسے چھڑوایا تھا اب یہاں پر صدیق نے ایک تگڑا وکیل کر کے اپنے بھائی عمر کو ضمانت دلوائی یہ واپس ا کر وہ اسی گھر کے کاغذات اپنے والد کو دیتا ہے کہ یہ ہے وہ اپ کا گھر جو عمر نے بیچا تھا یہ میری طرف سے اپ کو تحفہ ہے وہ باپ کو اس کا گھر دیتا ہے اور باپ رونے لگ جاتا ہے خوشی سے اور اپنے بیٹے کو گلے لگا لیتا ہے پھر وہ اس کی بیوی کے گھر جاتے ہیں وہاں پر اس سے بھی معافی مانگتے ہیں کہ ہم سے غلطیاں ہوئیں ہمیں اب تم پر الزام نہیں لگانا چاہیے تھا تم بہت اچھی تھی ہم لالچ میں ا چکے تھے ایسے کرتے کرتے وہ ساری فیملی دوبارہ اکٹھی ہو جاتی ہے اور ہنسی خوشی زندگی گزارنے لگ جاتی ہے۔