عمران خان کی ضمانت ہو گئی مگر رہائی ناممکن
میں نے اپ کو اسلام اباد کے کورٹ رپورٹر سے معلومات لے کے بتا دیا تھا کہ جسٹس گل حسن اورنگزیب کا مائنڈ اج یا عدالت کا ماحول یہ لگ رہا ہے کہ وہ اج ہی عمران خان کی ضمانت کا فیصلہ کر دیں گے اور بالکل وہی فیصلہ ہوا اور جسٹس گل حسن اورنگزیب نے عمران خان کی ضمانت منظور کر لی ہے اور انہوں نے اس کا جو شارٹ ارڈر ہے وہ بھی جاری کر دیا ۔
اور اس کیس کے حوالے سے بھی کچھ بڑی بنیادی جو سوالات یا چیزیں ہیں وہ اج عدالت کے روبرو ائیں 10 لاکھ روپے کے مچل کے جمع کرانے کے حوالے سے اور اس سارے معاملے کے اندر انہوں نے جسٹس گلسن اورنگزیب نے کہا کہ میری رائے کے مطابق یہ سارا کیس تخمینہ لگانے والے پرائیویٹ شخص کی شہادت پر ہے شہادت کا معاملہ پروسیکیوٹنگ ایجنسی کو ثابت کرنا ہوتا ہے میں عمران خان کی درخواست ضمانت منظور کر رہا ہوں ۔
اب اس دوران جسٹس گلشن اورنگزیب نے ایک دو سوالات ایسے پوچھے جو ذرا بڑے دلچسپ ہیں انہوں نے کہا کہ جن تین کسٹمز افسران نے غلط قیمت لگائی ان سے متعلق کیا کاروائی ہوئی ہے تو اس کے اوپر ایف ائی اے پروسیکیوٹر نے کہا دیکھیے جو کسٹمز افسران ہیں نا ان سے کوتاہی ہوئی ہے تو وہ کریمنل مس کنڈکٹ نہیں تھا نیب کی جانب سے ان افسران کے خلاف کوئی محکمہ جاتی کاروائی کی سفارش نہیں کی گئی تو جیسے گلہ سر نے کہتا ہے کہا کہ چلیں کہہ دیتے ہیں کہ وہ بہت اچھے لوگ تھے جس کے بعد عدالت میں زوردار کیا کہا لگا یعنی اگر وہ جو کسٹم افسران ہیں انہوں نے اگر غلط تخمینہ لگایا تو انہوں نے کوئی مس کنڈکٹ نہیں کیا لیکن ہم نے عمران خان کا مس کنڈکٹ بتانا ہے اور ساتھ ہی ایک اور بات سمجھ ائی کہ جو وہ پرائیویٹ شخص ہے ا صہیب عباسی۔
جسے عام معافی دے کر وعدہ معاف گواہ بنایا گیا اور مرضی کی مزے کی بات یہ ہے اس نے نیب کو معافی کے لیے جس دن درخواست دی اسی دن اس کو چیئرمین نیب نے معاف کیا اور معاف کر کے وعدہ معاف گواہ بنا دیا تو اس طرح سے کیسز کو لے کے چلتے ہیں وہ کیسز چل نہیں پاتے عدالتوں میں ٹک بھی نہیں پاتے اب سوال یہ ہے کہ ضمانت تو منظور ہو گئی عمران خان کی رہائی اپ کو بھی پتہ ہے مجھے بھی پتہ ہے کہ وہ ضمانت کی بنیاد کے اوپر رہائی نہیں ہونی تھی نہ ہو پائے گی ۔
میں ذرا ایک حوالدار اینکر کا یا رپورٹر کا ایک اپ کے سامنے ٹویٹ رکھتا ہوں تو اس حوالے سے منیر فاروق اپ جانتے ہیں کہ ذرا غیر سرکاری ترجمان ہیں ٹی وی پہ ا کے دھمکیاں دیتے ہیں بتاتے ہیں کہ انے والے دنوں میں کیا ہو رہا ہے انہوں نے کہا جی پانی پی ٹی ائی عمران خان صاحب کی رہائی کا تعلق کسی ضمانت سے نہیں ہے مخصوص حالات اور پالیسی سے ہے جس دن اور وقت دونوں بدل گئے عمران خان صاحب رہا ہو جائیں گے یعنی انہوں نے بتایا کس ملک میں ائین قانون عدالتیں کچھ نہیں ہے یہ کہیں اور کی پالیسی ہے جس نے وہ تبدیل ہو جائے گی عمران خان رہا ہو جائیں گے اب عمران خان کی ضمانت کو لے کے غریجہ فاروقی نے کہا ہے کانفیڈنس بلڈنگ میر سوال یہ ہے کہ کانفیڈنس بلڈنگ میر کرنا کیوں پڑا ہے سن بتا دیتے ہیں اگلی بات بھی بتاتے ہیں اج علی امین گنڈاپور کی ملاقات ہوئی عمران خان سے جب ملاقات جاری تھی تو میں نے اپ کو بتایا تھا تقریبا دو گھنٹے کے اس پاس ملاقات ہوئی۔
اور گنڈا پور کہہ رہے ہیں کہ عمران خان کو رہا کروانے اور مطالبات منوا کر ہی دم لیں گے مذاکرات عمران خان کی رہائش سے شروع ہوں گے اور اگے بڑھیں گے اور تحریک انصاف کے سیکرٹری اطلاعت نے کہا جی ار یہ گنڈا پور سے بات ہوئی ہے 24 نومبر کی کال ویسے ہی ہے جیسے تھی اور پروپگینڈا کرنے والوں کو مسترد کرتا ہوں تو گنڈاپور جو ہے انہوں نے مزید اس بارے میں کہا کہ ہم سب کے لیے پاکستان تحریک انصاف کا نعرہ اب نہیں تو کب ہم نہیں تو کون کو ثابت کرنے کا وقت ا چکا ہے قوم نے فیصلہ کرنا ہے کیا وہ غلامی کریں گے پی ٹی ائی کا نظریہ جنون ہے اور جنون مرتا نہیں ہے اور بڑھتا ہے ۔
لیکن اپ کو پتہ ہے کہ عمران خان نے جیل سے کیا کہا ہے عمران خان نے بڑی واضح بات کی کہا ہمارا احتجاج ان ہے نہ مذاکرات سے پہلے کبھی انکار کیا نہ اپ کریں گے اگر مذاکرات اگے بڑھیں گے تو ہم جشن منائیں گے وردہ پوری قوم اپنے حقوق کے لیے 24 نومبر کو احتجاج کے لیے باہر نکلے اور صرف یہاں تک نہیں ہے عمران خان نے کہا کہ کوئی ڈیل نہیں ہو رہی مذاکرات ہمارے مطالبات کے اوپر ہی ہوں گے اور اسے ہٹ کے جو ایک اور عمران خان نے بات کی ہے وہ بہت ہی دلچسپ ہے گرنا پور صاحب تو یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم عمران خان کو مایوس نہیں کریں گے لیکن عمران خان کیا کہہ رہے ہیں عمران خان کہہ رہے ہیں کہ جناب گنڈاپور اور بیسٹر گوہر کو کل تک کا وقت دیا ہے ۔
اور کل جمعرات تک اگر مذاکرات نے پیشرفت نہ ہوئی تو جمعرات سے ہمارے قافلے نکل پڑیں گے لیکن اپ کو پتہ ہے کہ سب کے بیچ میں ہو کیا رہا ہے بات تو کئی ہو رہی ہے دیکھیں یہ بات طے شدہ ہے اور یہ جو گنڈاپور اج بھی دو گھنٹے ملاقات کے لیے ائے کل بھی ائے تھے تو کوئی پیغام تو لے کے ا رہے ہیں نا کہیں تو کچھ ہو رہا ہے تو سن لیجئے یہ ایک اپ کو خبر دے رہا ہوں خبر یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف نے کہا ہے کہ ہم اس احت ہو گئی لیکن نو مئی کے لاہور میں جو 12 مقدمات ہیں اس میں سے چار کی ضمانت کی خبر میں نے اپ کو دی تھی اور اٹھ مقدمات میں عمران خان کی ضمانت نہیں ہوئی تھی ۔
اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اس دن عمران عمران خان کے وکلا اویلیبل نہیں تھے اور اب وہ جو کیس ہے اس کے اوپر 30 تاریخ کو سماعت ہونی ہے تو ان کیسز کے حوالے سے تو کچھ راولپنڈی کے کیسز ہیں جہاں پہ ابھی ضمانتی میں چل کے جمع نہیں ہوئے تو اس قسم کی باتیں ہیں اور وہاں پہ رہائی والا میٹر نہیں ہے میں اپ کو خبر کیا دے رہا ہوں خبر یہ ہے کہ ان مذاکرات کے دوران ظاہر ہے کہ عمران خان یا تحریک انصاف سے کیا کہا جا رہا ہوگا کہا کال واپس لیں انہوں نے کہا جی بالکل کال واپس لے لیتے ہیں لی جا سکتی ہے کیسے لی جا سکتی ہے کیسے لیں گے ان کا کہا پہلا کام یہ کریں کہ عمران خان کو اڈیالہ سے نکالیں اور خیبر پختون خواہ منتقل کر تو ہم احتجاج کی کال واپس لے لیں گے۔
یہ میں اپ کو خبر دے رہا ہوں اور اگر اپ نے یہ نہ کی تو پھر 24 نومبر فائنل کال ہے اپ اس کے لیے تیار ہو جائیں ہم اس کے لیے اب اس کے پیچھے کیا بنیادی بات ہے اگر عمران خان اڈیالہ سے منتقل ہو کے خیبر پختون خواہ چلے جاتے ہیں یہ رسک بھی ہے کہ خدانہ کرے اللہ نہ کرے وہاں پہ جیلوں میں اپ کو پتہ ہی ہے تو پھر اس کی ذمہ داری تحریک انصاف پہ تحریک انصاف پھر یہ بھی نہیں کہہ سکے کہ عمران خان کے ساتھ وہاں پہ کیا ہو رہا ہے یا ان سے سلوک کیسا ہو رہا ہے پھر اپ کے مخالفین کہیں گے کہ دیکھیں عمران خان تو جیل نہیں کاٹتے لگزری ٹائم گزار رہے ہیں لیکن اس کا مطلب کیا ہوتا ہے وہاں منتقلی کا مطلب یہ ہوگا کہ اپ ان کو مریم نواز اور پنجاب حکومت کے چنگل سے نکال لیں گے اپ کسی بھی جگہ کو سب جیل قرار دیں گے ۔
اور عمران خان کو وہاں منتقل کر دیا جائے گا کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے اور پھر عمران خان کی تصویریں بھی باہر انا شروع ہو جائیں گی بہت کچھ باہر انا شروع ہو جائے گا تو اگر وہاں سے منتقل ہو گئے تو اس حکومت کے اور اسٹیبلشمنٹ کے اعتماد کو بھی نقصان پہنچے گا کہ ہم تو منتقل نہیں کر رہے تھے کوئی بات چیت ہو رہی ہے کچھ معاملات ہیں جس کی بنیاد کے برابر منتقل کر رہے ہیں اب اس پہ جواب کیا اتا ہے یہ دیکھنے والی بات ہے رینجرز کو اپ نے ڈپلائے کیا ڈیٹ بتایا گیا جی پچھلی تاریخیں نکالی گئی ہے ایف سی اور پولیس جو ہے وہ ڈی چوک پہنچے ہوئے ہیں ۔
اور ایک جانب عمران خان کے یہ چیزیں ہیں اور دوسرا ایک درخواست انہوں نے دی ہوئی تھی عمران خان کی ہمشیرہ نے کہ پنجاب میں جتنے مقدمات ہیں اس کے اندر عمران خان کو بری ضمانت دی جائے لیکن جسٹس فاروق حیدر نے اس درخواست کو مسترد کر دیا اور یہ کہا کہ ظاہر ہے کہ ضمانت کا بنیادی اصول یہ ہوتا ہے کہ اپ کو عدالت کے روبرو پیش ہونا ہوتا ہے تو اس لیے اپ جو ہے ان عدالتوں میں سامنے پیش ہوں اب ذرا دیکھیے وہاں پہ کیا الزام ہے وہاں پہ الزام یہ ہے کہ عمران خان پیش نہیں ہو رہے عمران خان نے پیش پیش کیسے ہونا ہے عمران خان تو اپ کی کسٹڈی کے اندر ہے اور انہوں نے اپنی کسٹڈی میں اپ نے پیش کرنا ہے عمران خان نے نکل کے پیش کرنا ہے تو یہ ایک پورے کا پورا میچ ہے۔
جس میں سسٹم مختلف ٹیکٹکس کے ذریعے عمران خان کو جیل کے اندر رکھتا ہوا دکھائی دے رہا ہے اب ایک خبر اچھا ایک چیز اپ کو اور بتانی ہے کہ 24 نومبر کی کال کو لے کے مولانا فضل الرحمن جو ہے اب یہ الگ بات ہے کہ اسلام اباد میں کنٹینرز لگانا ابھی سے شروع کر دیے گئے ہیں ابھی چار روز باقی ہیں کنٹینرز پہنچ ضرور گئے شاید راستے بھی بند نہیں کیے گئے ہم فضل الرحمان صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ جو 24 نومبر کی تحریق انصاف کی تجاج جو ہے وہ کال مناسب نہیں ہے ان کا کہنا یہ ہے کہ مسلسل احتجاج سے احتجاج کی اہمیت نہیں رہتی اور پی ٹی ائی میں موثر حکمت عملی بنانے والے لوگ نہیں ہیں۔
میرا خیال ایسا ہے نہیں ہے تحریک انصاف جس نہج پہ سسٹم کو دھکیل رہی ہے اگر یہ سب باتیں نہ مانتے یہ ان کا خاصہ ہے دیکھیں احتجاج کی ہمیں تبدیلی رہتی جب لوگ نہ نکلے جب اپ کو پتہ ہو کہ ہم کال دیں گے لوگ نہیں ا گے وہ جب کال لکھتے ہیں جہاں کال دیکھتے ہیں لوگ ان کے لیے نکلتے ہیں اچھا ایک میٹرک سپریم کورٹ سے ہے سپریم کورٹ کے اندر فوجی عدالتوں کا کوئی بھی کیس سننا نہیں چاہتا لگتا تو یہی ہے ہم نے دیکھا قاضی فائض عیسی ابن اپ کو الگ کر لیا تھا ایون موجودہ چیف جسٹس جو ہیں جسٹس جائیے افریدی انہوں نے بھی الگ کیا تھا اور ایک اپ کو ایک اور خبر دوں اسلام اباد سے حوالدار اب یہ بھی دعوی کرنا شروع ہو گئے کہ پہلے اپنے چیف جسٹس کا جو ٹنیور تین سال کا فکس کیا تھا اس کو ختم کر کے دوبارہ جو عمر ہے وہ 65 سال کی جا رہی ہے اگر اپ نے 65 سال کی تو اپ کو پتہ ہے اس کا کیا مطلب ہوگا کہ یحیی افریدی اٹھ سال تھی ایک جسٹس رہ سکتے ہیں ۔
اپ کو پتہ ہے اس بات کا تو یہ تو بہت لمبی گیم ہے تو اب جیسے یایا افریدی کے حوالے سے بھی پھر سوال اٹھیں گے کہ اپ ال بورڈ تھے کیا اپ کی مرضی سے سب کچھ ہوا تو اس حوالے سے خبر یہ ہے کہ جناب ملٹری کورٹ کے حوالے سے جو ججز کی جو ائینی بینچ والی کمیٹی ہے اس کا فیصلہ ہوا ہے اور بتایا گیا ہے کہ انٹرا کورٹ اپیلے جو ہیں وہ سماعت کے لیے مقرر نہیں ہو سکی۔
اور وہاں پہ دعوی یہ کیا جا رہا ہے چونکہ اب اس سلسلے میں عائشہ ملک صاحبہ جو تھی انہوں نے سپنج کا فیصلہ دیا تھا تو اطلاعات یہ ہے کہ وہ ائینی بینچ کا حصہ نہیں رہ سکتی تو اب 13 رکنی جوڈیشل کمیشن کو یہ میٹر بھیجا جا رہا ہے کہ وہ طے کرے گا فوجی عدالتوں کا فیصلہ کون سے جج سنیں گے یعنی اپ یوں سمجھیے کہ فوجی عدالتوں کا فیصلہ حکومتی ارکان کریں گے کیونکہ حکومت کی اکثریت ہے اس میں اور پہلے بھی ہم نے دیکھا کہ جو حکومت نے فیصلہ کیا وہی کچھ ہوا تو دوسرے لفظوں میں اپ یوں کہیے کہ حکومت اب طے کرے گی ۔
کہ جناب علی اب کون کون سے جج فیسٹ کون سا کیس سنیں گے تو اب تو یہ سپریم کورٹ سے بھی اپ نے اختیار واپس لے لیا تو کیا ہی شاندار بات ہے اب سپریم کورٹ کا نام بدل کے اگر کوئی حکومتی نام دے دیا جائے تو وہ ذرا زیادہ مناسب ہو گا۔