اسلام آباد والوں کے لیے بہت بری خبر

اسلام آباد والوں کے لیے بہت بری خبر

عمر دراز یہ جو ائینی بینچ والا تماشہ سپریم کورٹ کے اندر لگایا گیا چلیے ایک تو یہ سپریم کورٹ کو تقسیم کرنے والی بات تھی جو کہ اس میں وہ کامیاب بھی ہو گئے یعنی اج سپریم کورٹ سے دو کاز لسٹیں جاری ہوئی ہیں ایک کاز لسٹ معمول کی سپریم کورٹ کی ہے اور جو دوسری کاسٹ ڈسٹ ہے وہ ائینی بینچ سے متعلق ہے اس سے اپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ائندہ ہفتے کے لیے یہ جو کاز لسٹ ہے سات ججز جو ہیں ائینی بینچ کے وہ معمول کے کیسز نہیں سنیں گے ان کے کیسز یہ الگ ہیں وہ نارمل بینچز میں بیٹھیں گے تو اس کا مطلب کیا ہوا کہ وہ ائینی بینچ ائینی عدالت ہی عملی طور پہ بن گیا ۔

لیکن اس میں ایک اور بات ہے اس میں اس ائینی بینچ کو یا ائینی عدالت کو جو بھی نام دینا چاہتے ہیں ہوا یہ کہ حکومت کے اندر ڈر یا خوف یہ تھا کہ کہیں اٹھ فروری 2024 کا الیکشن جو ہے وہ کھل نہ جائے اور خواجہ اصف جیسے وزرا ٹی وی کے اوپر ا کے بتاتے رہے ہیں کہ ہمارا خدشہ یہ ہے یا ہمیں جو جس کے اوپر وہ کہتے رہے اسی لیے جسٹس منصور علی شاہ صاحب کا راستہ روکا گیا ہے لیکن اب دو خبریں اپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں جو ان کے لیے پریشانی کا سبب ہے ایک خبر اج ڈون اخبار کے اندر رپورٹ ہوئی اور میں اس کو پڑھ کے بتا دیتا ہوں جس سے اپ کو پتہ چلے گا اور پھر میں اپ کو دھاندلی والے کیس کی خبر دوں گا ڈون اخبار نے اج یہ لکھا ہے کہ جورسڈکشن روز سروسز ایز سپریم کورٹ اب اس کا مطلب یہ ہوا کہ سپریم کورٹ کے اندر ایک نئی پرابلم یہ ہے کہ اب جورسڈکشن کس کی بنتی ہے کیا یہ سپریم کورٹ کی بنتی ہے یا سپریم کورٹ میں بننے والے ائینی بینچ کی بنتی ہے۔

 اس میں ڈاؤن اخبار کی خبر کے مطابق جسٹس منصور علی شاہ صاحب جو ہیں ان کی سربراہی کے اندر دو رکنی بینچ نے جی ایچ کیو کے بارے میں ایک این ایل سی جو جو اپ یوں سمجھیے کہ فوج کا ہی یا جی ایچ کیو کا ہی ایک ادارہ ہے اس سے متعلق ایک کیس کی جو ہے وہ سوات کی اچھا اس کیس کی سماعت کے دوران ہوا یہ کہ انلسی این ایل سی نے یہ کہا کہ بھائی یہ جو کیس ہے یہ ائینی بینچ کا بنتا ہے یہ اپ کا بنتا ہی نہیں ہے تو جسٹس منصور علی شاہ صاحب نے جو فوج کا یا جی ایچ کیو کا ادارہ این ایل سی ہے ان کے اعتراض کو مسترد کیا اور اعتراض کو اڑانے کے بعد انہوں نے فیصلہ محفوظ کر لیا اب یہ پہلی خبر ہے اور دوسری خبر یہ ہے کہ پھر انلسی این ایل سی والوں نے جو فوج کا ادارہ ہے انہوں نے سپریم کورٹ میں درخواست ڈالی کہ جسٹس منصور علی شاہ کا جو بینچ ہے اس کو حتمی فیصلہ سنانے سے روکا جائے نہ صرف روکا جائے بلکہ یہ جو معاملہ ہے یہ ائینی بینچ کے حوالے سے ہی جو ہے وہ اس کے سامنے لگایا جائے ۔

اب ائینی بینچ کے سامنے ہی کیوں وہ بھی تو جج ہے وہ بھی تو سپریم کورٹ ہے اخر کیا وجہ ہے کہ سب کو لگ رہا ہے قاضی کی درخواست تو فلاں درخواست تو ائینی بینچ کے سامنے جانی چاہیے ایک بات دوسرا دھچکا ایک اور ہے دوسرا دھچکا یہ ہے چونکہ میں نے اپ کو بتایا تھا کہ سارا تماشہ اس لیے لگایا گیا کہ الیکشن کھل نہ جائے عام انتخابات میں جو دھاندلی کی تین درخواستیں سپریم کورٹ کے سامنے ائی ہیں اور ان تینوں درخواستوں کے اوپر فیصلہ یہ ہوا ہے کہ یہ ائینی بینچ میں نہیں جائیں گی بلکہ معمول کے یا ریگولر جو سپریم کورٹ کے بینچز ہیں وہی ان درخواستوں کو سنیں گے اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ان تین درخواستوں کو سن سکتے ہیں تو پھر تو اٹھ فروری کے الیکشن کو یا باقی جو درخواستیں پینڈنگ ہیں ان کو بھی سپریم کورٹ سن سکتی ہے ۔

تو پھر تو بھائی اپ کا ائینی بینچ والا میٹر فارغ ہوتاور دکھائی دے رہا ہے اب یہ کون کون سیلف کے ہیں یہ بلوچستان کے تین حلقے ہیں اس میں ایک پی بی 28 ہے صوبائی اسمبلی کا حلقہ ہے پی بی 44 کوئٹہ ہے یہ بھی صوبائی اسمبلی کا ہے پی وی ا 45 کوئیٹا ہے یہ تین جو حلقے ہیں اس پہ تین جگہ اس کون کون سے ہیں جس طرح جسٹس منصور علی شاہ صاحب نے پہلا وہ معاملہ اڑایا یہاں پہ جسٹس عطر من اللہ صاحب ہیں نمبر ون نمبر ٹو جسٹس عرفان صادق خان ہے اور نمبر تھری جسٹس عقیل عباسی صاحب ہیں اور اپ جانتے ہیں کہ یہ جو تینوں ججز ہیں یہ 20 نومبر کو کیس سنیں گے اور ماضی میں جسٹس عطر من اللہ جو ہے وہ بہت کھل کے ان معاملات کے اوپر اور خاص کر جو الیکشن کی دھاندلی ہے اس کو لے کے باتیں کرتے رہے اور وہ ریمارکس بھی دیتے رہے۔

 اب اپ کو یہ دو خبریں سپریم کورٹ سے اندر سے مل گئیاگیا اج سپریم کورٹ کے اعلامیہ کے مطابق جو ہے وہ جیل ریفارم سے متعلق ایک ان لائن اجلاس ہوا اور یہ جو بتایا گیا ہے کہ دو نومبر کو جو لاہور میں اجلاس ہوا تھا اس کے فالو اپ کے طور کے اوپر ہے اور اس میں کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جس میں انسانی حقوق کی جو وکیل امنہ قادر ہے وہ اس کی احد چیمہ اور خدیجہ شاہ ممبر ہوں گے جو پورے پنجاب کی جیلوں کا وزٹ کر کے جامعہ رپورٹ اور سفارشات تیار کریں گے اور اس کے علاوہ چیف جسٹس کی پنجاب میں جیل سے متعلق تمام اداروں کو کمیٹی کے ہر لحاظ سے سہولت فراہم کرنے کی ہدایت اب سوال یہ ہے پھر اس کمیٹی کو تو جانا چاہیے اڈیالہ بھی عمران خان سے جو معلومات ہیں وہ بھی ان کو مل جائیں گی۔

 اور باقی ساری چیزیں بھی ہیں اب جب یہ ساری باتیں جو ہم اپ کے سامنے رکھتے ہیں ان باتوں کو روکنا ہے چونکہ کہا جاتا ہے جی پاکستان میں سوشل میڈیا یا جو ڈیجیٹل میڈیا ہے وہ پرابلم کرییٹ کر رہا ہے اب اس پہ دو ڈیویلپمنٹس اج ہوئی ہیں نمبر ون ڈیویلپمنٹ ذرا سن لیجئے کہ پاکستان کی جو وزارت داخلہ ہے جو جناب محسن نقوی کے ماتحت ہیں اس نے پی ٹی اے کو جو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی ہے اس کو ایک خط لکھا ہے اور ان کو کہا ہے کہ یہ جو وی پی اینز ہیں یعنی ورچول پرائیویٹ نیٹورکس جو ہیں ان کو بند کیا جائے اور اس سلسلے میں کہا وہی گیا ہے کہ دہشت گردی والے معاملات اور یہ کہا گیا ۔

جی وہ ٹرانزیکشنز ہو رہی ہیں اس قسم کی بات ہے تو یہ کہا گیا ہے کہ جناب جو اللیگل وی پی اینز ہیں پاکستان کے اندر ان کو بند کیا جائے اور اس سلسلے میں جو رجسٹریشن ہے وہ 30 نومبر تک جو ہے وہ یقینی بنائی جائے یعنی کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اپ تک ٹوٹر کے ذریعے یا باقی جگہوں کے اوپر اپ کو انٹرنیٹ بند کر کے جو کیا جاتا ہے اس کو بھی روکا جائے یعنی پاکستان میں سانس لوگوں کی بند کر دی جائے میں اپ کو ایک چیز بتاتا ہوں جو اج ایکسپریس ٹرائبیون کے اندر ہم نے دیکھی ہے جو شہباز رانا صاحب نے خبر میں کی ہے پھر میں اگلی بات بتاؤں گا امریکہ کے معروف ٹیکنالوجی تھنگ ٹینک کے جو نائب صدر ہیں جنرل کیسٹو انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان میں جو انٹرنیٹ پر پابندیاں ہیں وہ وقتی طور پہ یا قلیل مدتی طور پہ تو سیاسی طاقت فراہم کر سکتی ہیں ۔

کسی کو فائدہ دے سکتی ہیں لیکن اس سے طویل مدتی معاشی ادب استحکام پیدا ہو سکتا ہے یعنی ان دی لانگر رن پاکستان کو اس کا نقصان ہوگا فائننشلی کوئی نہیں ہوگا اب اندازہ کیجئے کہ یہ وی پی این بند کرنا اگر محسن نقوی کہہ رہا ہے تو یہ کس کا خیال ہے محسن نقوی کس کا فرنٹ مین ہے محسن نقوی کس کا چہرہ ہے محسن نقوی کس کا نمائندہ ہم سب جانتے ہیں جب خواجہ اصف خود کہے کہ ملک کے اندر ایک ہائبرڈ گورنمنٹ کو اسٹیبلشمنٹ کا چل رہا ہے اب اندازہ کیجئے کہ اج اسلامی نظریاتی کونسل نے ان کے جو چیئرمین علامہ راغب نعیمی صاحب ہیں ان کی جانب سے کہا گیا ہے اسلامی نظریاتی کونسل نے کہ جو وی پی این کا استعمال ہے وہ غیر شرعی ہے اور یہ کہا ہے کہ حکومت کا شرعی لحاظ سے اختیار ہے کہ وہ برائی اور برائی تک پہنچانے والے تمام اقدامات کا انسداد کرے اور اگے لکھا گیا ہے متنازعہ گستاخانہ اور ملکی سالمیت کے خلاف استعمال ہونے والی ایپ فوری بند کیا جانا چاہیے اب اس سے اندازہ ہوا کہ اب ہمیں اسلامی نظریاتی کونسل جو ہے وہ بتایا کرے گی کہ ملکی سالمیت کیا ہے میں صرف ایک بات کہنا چاہتا ہوں ۔

کہ ہزاروں سال سے طے شدہ شریعت کے حوالے سے عدت کا ایک معاملہ تھا اس کو چھیڑا گیا یہ علماء خاموش رہے لیکن وی پی این جیسے مسئلے کے اوپر ہمارے یہ علماء رائے کیسے دیتے ہیں جہاں دینی تھی جو شریعت کا معاملہ تھا وہاں تو اپ خاموش رہے کل تک اپ ٹی وی کو بھی غیر شرعی قرار دیتے تھے ریڈیو کو تصویروں کو ویڈیوز کو اج اپ خود سارا کچھ کر رہے ہیں ان معاملات کے اوپر تو اپ خاموش ہیں پھر یہ جو علمائے کرام یہ جو وی پی این کو غیر شرعی یا باقی کہتے ہیں کہ ان کو ہی کابینہ میں شامل کیوں کیا جاتا ہے ان کو ہی عہدوں سے کیوں نوازا جاتا ہے یہ تب کیوں نہیں بولتے جب لوگ اٹھ فروری کو جس کو ووٹ دیتے ہیں اس کو اروس کے کمرے میں ہرا دیا جاتا ہے یہ تب کیوں نہیں بتاتے یہ غیر شرعی ہے یہ جب لوگوں کی چادر چار دیواری کا تقدس پامال کیا جاتا ہے۔

 تب کیوں نہیں بتاتے یہ ہے جب عورتوں کے ا وہ گریبانوں تک ہاتھ پہنچتے ہیں جب یہ طاقت کا بے رحمانہ استعمال پاکستان میں دیکھتے ہیں ۔

انسانی حقوق کی کوئی چیز نہیں ہے لوگوں کے جائز کاروبار تباہ و برباد کر دیے جاتے ہیں ۔

لوگوں کو اٹھا لیا جاتا ہے لا اٹھائی ہوئی ہے کہ اس ملک میں یا ہماری یہ تاریخ ہے ہم نے تاریخ میں بھی دیکھا ۔

کہ کن کن طاقتوروں کو علماء نے کب تک تاریخ کے اندر فتوے ان کے حق میں دیے مقابلے میں چاہے کون تھا اس کا تعلق کس مقدس گھرانے سے تھا۔

 اور یہ بھی یہی کرتے ہیں یہ تب ہی کیوں بولتے ہیں جب اپ نے کسی مخصوص حلقوں کے مفادات کے تحفظ کرنا ہوتا ہے اپنا بہت سارا خیال رکھیں گا خدا حافظ۔

Leave a Comment